صلاة الشكر
سجدہ شکر مشروع اور جائز ہے، لیکن نماز شکر غیر مشروع اور غیر ثابت ہے، اس کے بارے میں مروی روایت ضعیف اور نا قابل عمل ہے تحقیقی جائزہ پیش خدمت ہے:
1۔ سیدنا عبد اللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
إن رسول الله صلى الله عليه وسلم صلى يوم بشر برأس أبي جهل ركعتين
”جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ابو جہل کے سر قلم کیے جانے کی خوشخبری آئی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو رکعت نماز شکر ادا کی۔“
(سنن ابن ماجه : 1391، سنن الدارمي : 1503، مسند البزار : 3368، مسند أبي يعلى كما في إتحاف الخيرة المهرة لابن حجر : 401/1، المعجم الكبير للطبراني كما في مجمع الزوائد للهيثمي : 238/2)
سند ضعیف ہے۔
➊ شعثاء بنت عبداللہ اسدیہ کو فیہ مجہولہ ہے۔
❀حافظ پیشمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
لم أجد من وثقها ولا جرحهها
” نہیں معلوم کون اس کی توثیق کرتا ہے اور کون اس پر جرح کرتا ہے؟“
(مجمع الزوائد : 237/2)
❀ حافظ بوصیری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
لم أر من تكلم فيها لا بجرح ولا بتوثيق
”میرے مطابق اس پر جرح و توثیق کے حوالے سے کوئی کلام نہیں کی گئی۔“
(مصباح الزجاجة : 448/1)
❀ حافظ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
تفرد عنها سلمة بن رجاء
”سلمہ بن رجاء اس سے روایت کرنے میں منفرد ہے۔“
(ميزان الاعتدال : 608/4)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
لا تعرف
”مجہولہ ہے۔“
(تقريب التهذيب : 8616)
➋ شعثاء کا سیدنا عبد اللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ سے سماع معلوم نہیں۔
➌ سلمہ بن رجاء تمیمی کے بارے میں امام ابن عدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
أحاديثه أفراد وغرائب ويحدث عن قوم بأحاديث لا يتابع عليه
”اس کی احادیث منفرد اور غریب ہیں، ایسی راویوں سے بیان کرتا ہے، جن کی متابعت نہیں کی گئی۔“
(الكامل في ضعفاء الرجال : 332/7)
❀ امام دارقطنی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
ينفرد عن الثقات بأحاديث
”ثقہ راویوں سے منفرد روایتیں بیان کرتا ہے۔“
(سؤالات الحاكم، ص 332/7)
لہذا یہ روایت ضعیف و منکر ہے۔ نماز شکر غیر مشروع اور غیر ثابت ہے۔ اللہ تعالیٰ کے ہاں وہی عبادات درجہ قبولیت حاصل کرتی ہیں جو سنت سے ثابت ہوں۔ خودساختہ عبادات کا کیا اعتبار؟
تنبیہ :
سیدنا حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:
كان النبي صلى الله عليه وسلم إذا حزبه أمر، صلى
”نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو پریشانی درپیش ہوتی تو نماز پڑھتے۔“
سند ضعیف ہے۔
➊ محمد بن عبد اللہ دولی مجہول الحال“ ہے۔
➋ عکرمہ بن عمار یمانی کا عنعنہ ہے۔
(سنن أبی داود : 1319)