نصرانی اور مسیحی میں فرق
کیا نصرانیت کو مسیحیت اور نصرانی کو مسیحی کہنا درست ہے؟
تمہید:
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اس بات میں کسی قسم کا شک نہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے بعد نصاریٰ کا حضرت مسیح علیہ السلام کی طرف نسبت درست نہیں رہی۔ اگر واقعی وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے سچے پیروکار ہوتے تو لازمی طور پر نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لے آتے۔ اس لیے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے خود بنی اسرائیل کو نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کی بشارت دی تھی۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿وَإِذ قالَ عيسَى ابنُ مَريَمَ يـبَنى إِسرءيلَ إِنّى رَسولُ اللَّهِ إِلَيكُم مُصَدِّقًا لِما بَينَ يَدَىَّ مِنَ التَّورىةِ وَمُبَشِّرًا بِرَسولٍ يَأتى مِن بَعدِى اسمُهُ أَحمَدُ فَلَمّا جاءَهُم بِالبَيِّنـتِ قالوا هـذا سِحرٌ مُبينٌ ﴿٦﴾ … سورة الصف
’’اور (وہ وقت بھی یاد کرو) جب مریم کے بیٹے عیسیٰ نے کہا کہ اے بنی اسرائیل! میں تمہارے پاس اللہ کا بھیجا ہوا آیا ہوں (اور) جو (کتاب) تو رات مجھ سے پہلے آچکی ہے اس کی تصدیق کرتا ہوں اور ایک پیغمبر جو میرے بعد آئیں گے جن کا نام احمد ہوگا، ان کی بشارت سناتا ہوں (پھر) جب وہ ان لوگوں کے پاس کھلی نشانیاں لے کر آئے تو کہنے لگے کہ یہ تو صریح جادو ہے۔‘‘
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی بشارت اور اس کا مقصد
حضرت عیسیٰ بن مریم علیہما السلام نے اپنی قوم کو نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کی بشارت دی تھی تاکہ وہ ان پر ایمان لا کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لائے ہوئے دین کو قبول کر لیں۔ ظاہر ہے کہ ایسی بشارت دینا جس کا کوئی فائدہ نہ ہو، کسی بھی عقل مند انسان کا کام نہیں، چہ جائیکہ ایک جلیل القدر نبی ایسا کرے۔ اور یقیناً حضرت عیسیٰ علیہ السلام وہی نبی ہیں جنہوں نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کی خوش خبری دی تھی۔
اسی سلسلے میں قرآن مجید کی یہ آیت:
﴿فَلَمّا جاءَهُم بِالبَيِّنـتِ قالوا هـذا سِحرٌ مُبينٌ ﴿٦﴾ … سورة الصف
’’پھر جب وہ ان لوگوں کے پاس کھلی نشانیاں لے کر آئے تو کہنے لگے کہ یہ تو صریح جادو ہے۔‘‘
یہ اس بات کی دلیل ہے کہ جن کی آمد کی بشارت دی گئی تھی، وہ آ چکے ہیں لیکن نصاریٰ نے انکار کر دیا، اور انہیں ’’صریح جادو‘‘ قرار دیا۔
حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا انکار، دراصل حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا انکار ہے
جب نصاریٰ نے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا انکار کیا تو حقیقت میں انہوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا انکار کیا کیونکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کی خوش خبری دی تھی۔ لہٰذا نصاریٰ کا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرف انتساب کرنا درست نہیں۔ اگر وہ حقیقی مسیحی ہوتے تو ضرور اس نبی آخر الزماں پر ایمان لاتے جن کی آمد کی خود حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے خبر دی تھی۔
اللہ تعالیٰ کا انبیاء سے وعدہ اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق
اللہ تعالیٰ نے تمام انبیائے کرام علیہم السلام سے وعدہ لیا تھا کہ وہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائیں گے اور ان کی مدد کریں گے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
﴿وَإِذ أَخَذَ اللَّهُ ميثـقَ النَّبِيّـۧنَ لَما ءاتَيتُكُم مِن كِتـبٍ وَحِكمَةٍ ثُمَّ جاءَكُم رَسولٌ مُصَدِّقٌ لِما مَعَكُم لَتُؤمِنُنَّ بِهِ وَلَتَنصُرُنَّهُ قالَ ءَأَقرَرتُم وَأَخَذتُم عَلى ذلِكُم إِصرى قالوا أَقرَرنا قالَ فَاشهَدوا وَأَنا۠ مَعَكُم مِنَ الشّـهِدينَ ﴿٨١﴾ … سورة آل عمران
’’اور جب اللہ نے پیغمبروں سے عہد لیا کہ جب میں تم کو کتاب اور دانائی عطا کروں، پھر تمہارے پاس کوئی پیغمبر آئے جو تمہاری کتاب کی تصدیق کرے تو تمہیں ضرور اس پر ایمان لانا ہوگا اور ضرور اس کی مدد کرنی ہوگی۔ اور (عہد لینے کے بعد) پوچھا کہ بھلا تم نے اقرار کیا اور اس اقرار پر میرا ذمہ لیا (یعنی مجھے ضامن ٹھہرایا)؟ انہوں نے کہا: (ہاں) ہم نے اقرار کیا۔ اللہ نے فرمایا: تم (اس عہد وپیمان پر) گواہ رہو اور میں بھی تمہارے ساتھ گواہ ہوں۔‘‘
اور جس پیغمبر کی تصدیق اور جس کی مدد کا وعدہ لیا گیا وہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہی ہیں۔
قرآن کی تصدیق: حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سابقہ کتابوں کے مصدق
اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں واضح فرمایا:
﴿وَأَنزَلنا إِلَيكَ الكِتـبَ بِالحَقِّ مُصَدِّقًا لِما بَينَ يَدَيهِ مِنَ الكِتـبِ وَمُهَيمِنًا عَلَيهِ فَاحكُم بَينَهُم بِما أَنزَلَ اللَّهُ وَلا تَتَّبِع أَهواءَهُم عَمّا جاءَكَ مِنَ الحَقِّ﴾ … سورة المائدة: ٤٨
’’اور (اے پیغمبر!) ہم نے تم پر سچی کتاب نازل کی ہے، جو اپنے سے پہلی کتابوں کی تصدیق کرتی ہے اور ان (سب) پر نگہبان ہے، تو جو حکم اللہ نے نازل فرمایا ہے اس کے مطابق ان کا فیصلہ کرنا اور حق تمہارے پاس آچکا ہے اس کو چھوڑ کر ان کی خواہشوں کی پیروی نہ کرنا۔‘‘
نتیجہ:
خلاصہ یہ ہے کہ نصاریٰ کا حضرت عیسیٰ ابن مریم علیہما السلام کی طرف انتساب کرنا حقیقت کے خلاف ہے کیونکہ انہوں نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کی بشارت کا انکار کیا ہے، اور یہی انکار دراصل حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا انکار ہے۔ اس بنا پر انہیں "مسیحی” کہنا درست نہیں ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب