سوال کا تفصیلی جواب:
سوال نمبر (۱):
حدیث میں یہ بات آئی ہے کہ قبر میں دو فرشتے آتے ہیں، مردے کو بٹھاتے ہیں اور اس سے پوچھتے ہیں: "هٰذَا الرَّجُلِ” یعنی "اس شخص (محمد ﷺ) کے بارے میں تو کیا کہتا تھا؟”
اس حدیث سے بعض لوگوں کو یہ شبہ ہوتا ہے کہ نبی کریم ﷺ ہر مرنے والے کی قبر میں خود تشریف لاتے ہیں۔ کیا واقعی ایسا ہے؟ اگر نہیں، تو پھر اس حدیث کا صحیح مطلب کیا ہے؟
جواب:
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اس بات کو سمجھنے کے لیے صحیح بخاری کی ایک روایت کو دیکھتے ہیں:
صحیح بخاری، جلد 1، صفحہ 4 پر روایت ہے:
«إِنِّيْ سَائِلٌ هٰذَا عَنْ هٰذَا الرَّجُلِ»
(صحیح بخاری، ج1، ص4)
یہ الفاظ اس وقت کے ہیں جب شام کے بادشاہ ہرقل نے حضرت ابو سفیان سے نبی کریم ﷺ کے بارے میں سوالات کیے۔ اس موقع پر ہرقل نے نبی اکرم ﷺ کے لیے "هٰذَا الرَّجُلِ” یعنی "یہ شخص” کا لفظ استعمال کیا۔
جبکہ اس وقت نبی کریم ﷺ مدینہ منورہ میں تھے، اور شام نہیں گئے تھے۔ اگر ہرقل نبی کریم ﷺ کو اپنے سامنے موجود سمجھتا تو ابو سفیان سے سوالات کرنے کی ضرورت نہ پڑتی۔ اسی طرح، اگر ابو سفیان بھی یہ سمجھتے کہ نبی ﷺ وہاں موجود ہیں تو وہ کہہ دیتے: "یہ نبی ﷺ تو خود یہاں موجود ہیں، آپ ان سے براہ راست سوال کر لیجئے۔”
لہٰذا اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ:
- لفظ "هٰذَا الرَّجُلِ” کا مطلب یہ نہیں کہ وہ شخص موجود ہے۔
- بلکہ اس سے مراد ایک اشارہ یا ذکر ہے، جس سے موجودگی لازم نہیں آتی۔
اسی طرح جب قبر میں فرشتے مردے سے سوال کرتے ہیں:
"مَا كُنتَ تَقُولُ فِي هَذَا الرَّجُلِ؟”
تو اس سے مراد نبی کریم ﷺ کا ذکر ہے، نہ کہ ان کی قبر میں جسمانی آمد۔
مزید وضاحت:
دنیا میں ایک ہی وقت میں بے شمار لوگ وفات پاتے ہیں۔ اگر یہ مانا جائے کہ نبی کریم ﷺ ہر قبر میں بذات خود تشریف لاتے ہیں، تو یہ عقلاً بھی ممکن نہیں۔ لہٰذا اس حدیث میں نبی ﷺ کی قبر میں جسمانی حاضری مراد نہیں، بلکہ یہ سوال تمثیلی انداز میں ہوتا ہے، جس کا مقصد نبی ﷺ کے بارے میں عقیدہ اور موقف جاننا ہوتا ہے۔
سوال نمبر (۲):
کیا نبی کریم ﷺ کو صرف "یا محمد” یا "محمد” کہہ کر پکارا جا سکتا ہے یا نہیں؟
اگر یہ درست نہیں، تو پھر اس حدیث کا مطلب کیا ہو گا جس میں صحابہ نے "یا محمد” یا "یا رسول اللہ” کہہ کر نعرے لگائے تھے؟
جواب:
اس حوالے سے صحیح بخاری کے باب "ہجرت النبی ﷺ” کا مطالعہ کریں تو اس میں یہ روایت آتی ہے:
حضرت براء بن عازب رضي الله عنه فرماتے ہیں:
"حضور اکرم ﷺ جب ہجرت فرما کر مدینہ منورہ تشریف لائے تو مرد اور عورتیں گھروں کی چھتوں پر چڑھ گئے اور بچے اور خادم گلیوں میں متفرق ہو گئے، اور سب کے سب ندا کرتے، یعنی نعرہ لگاتے تھے:
یا محمد، یا رسول اللہ، یا محمد، یا رسول اللہ۔”
(صحیح بخاری، باب ہجرۃ النبی ﷺ)
اس روایت کی تشریح:
عربی زبان میں "یا” کے بعد منادی (جس کو پکارا جا رہا ہو) اور ایک مقدر فعل (چھپا ہوا مطلب) ہوتا ہے۔
یعنی ان نعروں کا مطلب صرف یہ نہیں تھا کہ "یا محمد”، بلکہ اصل مفہوم یہ تھا:
- "اے لوگو! رسول اللہ ﷺ تشریف لے آئے!”
- "اے مسلمانو! رسول اللہ ﷺ آ گئے!”
لہٰذا:
- یہ الفاظ تعظیمی انداز میں، خوشی کے اظہار کے طور پر کہے گئے۔
- اس میں کوئی بے ادبی یا گستاخی کا پہلو نہیں تھا۔
اسلامی آداب کے مطابق نبی کریم ﷺ کو نام لے کر یا صرف "محمد” کہہ کر پکارنا مناسب نہیں۔ قرآن مجید میں بھی واضح طور پر فرمایا گیا:
"لَا تَجْعَلُوا دُعَاءَ الرَّسُولِ بَيْنَكُمْ كَدُعَاءِ بَعْضِكُم بَعْضًا”
(یعنی رسول کو ایسے نہ پکارو جیسے تم ایک دوسرے کو پکارتے ہو)
نتیجہ:
- "یا محمد” یا "محمد” کہنا اگر عام انداز سے یا بے ادبی کے لہجے میں ہو تو یہ مناسب نہیں۔
- البتہ صحابہ کرام کے نعرے تعظیم اور خوشی کے اظہار کے طور پر تھے، نہ کہ عام اندازِ پکار۔
حوالہ جات:
- صحیح بخاری، ج1، ص4 – (روایت: «إِنِّيْ سَائِلٌ هٰذَا عَنْ هٰذَا الرَّجُلِ»)
- مسلم شریف، کتاب الزہد، ج2، صفحہ 419 (آخری حدیث)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب