کیا نبی ﷺ کو قیامت تک کے حالات دکھائے گئے؟ حدیث کی تحقیق
ماخوذ : فتاویٰ علمیہ جلد 3، اصول، تخریج الروایات اور ان کا حکم – صفحہ 208

روایت: دنیا اور قیامت تک کے امور کا نبی ﷺ کو دکھایا جانا

سوال:

ایک روایت میں ذکر ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

"إن الله عز وجل قد رفع لي الدنيا ، فأنا أنظر إليها وإلى ما هو كائن فيها إلى يوم القيامة كأنما أنظر إلى كفي هذه ، جليانا من أمر الله عز وجل جلاه لنبيه كما جلاه للنبيين قبله”

"بے شک اللہ تعالیٰ نے دنیا کو اٹھا کر میرے سامنے کر دیا ہے اور میں دنیا کو اور جو کچھ قیامت تک ہونے والا ہے وہ سب کچھ دیکھ رہا ہوں جیسا کہ میں اپنے ہاتھ کی اس ہتھیلی کو دیکھتا ہوں۔ یہ اللہ کی طرف سے کشف و اظہار ہے جو اس نے اپنے نبی کے لیے ظاہر کیا جیسا کہ اس نے آپ سے پہلے نبیوں کے سامنے ظاہر کیا تھا۔”

(کنز العمال 11/420، حدیث 3197، بحوالہ طبرانی، مجمع الزوائد 8/287، اور حلیۃ الاولیاء 6/101)

سوال یہ ہے کہ: کیا یہ روایت صحیح ہے؟
(محمد ہارون، برنالہ آزاد کشمیر)

جواب:

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

یہ روایت طبرانی رحمہ اللہ اور ابو نعیم اصفہانی رحمہ اللہ نے نقل کی ہے، اور اس کی سند درج ذیل ہے:

"بَقِيَّةَ ثنا سَعِيدُ بْنُ سِنَانٍ، عَنْ أَبِي الزَّاهِرِيَّةِ، عَنْ كَثِيرِ بْنِ مُرَّةَ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، مرفوعاً”

سند میں موجود راوی: ابو مہدی سعید بن سنان الشامی الحنفی

یہ راوی سخت مجروح ہے، اور جلیل القدر محدثین نے اس پر شدید جرح کی ہے:

امام بخاری رحمہ اللہ:
"منكر الحديث”
(کتاب الضعفاء بتحقیقی: 136، ص48)

امام نسائی رحمہ اللہ:
"متروك الحديث”
(کتاب الضعفاء للنسائی: 268)

امام دارقطنی رحمہ اللہ:
اسے اپنی کتاب الضعفاء والمتروکون میں ذکر کیا:
(270)

امام ابو حاتم الرازی رحمہ اللہ:
اسے "ضعیف الحدیث، منکر الحدیث” قرار دیا
اور فرمایا کہ اس نے ابو الزہریہ (حدیر بن کریب) عن کثیر بن مرہ عن ابن عمر کی سند سے تیس (30) منکر روایات بیان کی ہیں۔
(الجرح والتعدیل 4/114)

امام مسلم رحمہ اللہ:
"منكر الحديث”
(کتاب الکنی، ص109، 185، مخطوط مصور)

حافظ ذہبی رحمہ اللہ:
"متروك متهم”
(المغنی فی الضعفاء 1/406، ت241)

حافظ ابن حجر العسقلانی رحمہ اللہ:
"متروك رماه الدارقطني وغيره بالوضع”
(تقریب التہذیب: 2333)

مخالف قول:

صدقہ بن خالد سے مروی ہے:

"وكان ثقة مرضيا”

اور وہ ثقہ اور پسندیدہ راوی تھا۔
(الجرح والتعدیل 4/28)

لیکن اس قول کی سند میں "صاحب لي من بني تمیم” نامعلوم راوی ہے، اور اصولِ حدیث کے مطابق مجہول راوی کی توثیق معتبر نہیں۔
(دیکھیے: اختصار علوم الحدیث لابن کثیر، مترجم اردو، ص61-62، قسم: 23)

حافظ نور الدین الہیثمی رحمہ اللہ کا تبصرہ:

"ضعيف جدا ، ونقل عن بعضهم توثيقه ولم يصح”

یعنی وہ سخت ضعیف ہے اور بعض محدثین سے اس کی توثیق منقول ہے، مگر یہ توثیق صحیح ثابت نہیں۔
(مجمع الزوائد 5/127)

دوسری علت قادحہ: راوی "بقیہ” کی تدلیس

روایت میں دوسرا بڑا نقص یہ ہے کہ:

راوی بقیہ بن ولید صدوق مگر مدلس ہے۔
◈ اور یہ روایت "عن” کی صورت میں ہے۔
◈ اصول حدیث کے مطابق (صحیح بخاری و صحیح مسلم کے علاوہ) مدلس راوی کی "عن” والی روایت ضعیف و مردود شمار ہوتی ہے۔

خلاصۂ تحقیق:

◈ یہ روایت سخت ضعیف اور مردود ہے۔
◈ اس سے کوئی شرعی استدلال جائز نہیں۔

وما علینا إلا البلاغ
(2 فروری 2013ء)

ھذا ما عندي، والله أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے