کیا نبی کریم ﷺ سے تین وتر ایک سلام سے ثابت ہیں؟
ماخوذ: فتاوی امن پوری از شیخ غلام مصطفی ظہیر امن پوری

سوال:

کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے تین وتر ایک سلام سے ثابت ہیں؟

جواب:

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک سلام سے تین وتر ثابت نہیں، ملاحظہ فرمائیں:
❀ بعض لوگوں نے تین وتر ایک سلام سے ادا کرنے پر بخاری و مسلم کی ایک حدیث سے استدلال کیا ہے، لیکن یہ بات درست نہیں، کیونکہ اس حدیث کی وضاحت صحیح مسلم میں موجود ہے۔
❀ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں:
كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يصلي فيما بين أن يفرغ من صلاة العشاء وهى التى يدعو الناس العتمة إلى الفجر، إحدى عشرة ركعة، يسلم بين كل ركعتين، ويوتر بواحدة.
”نماز عشاء، جسے لوگ ”عتمہ “کہتے ہیں، اور نماز فجر کے درمیان نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم گیارہ رکعت ادا کرتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہر دو رکعت کے بعد سلام پھیرتے اور ایک وتر ادا کرتے۔“
(صحيح مسلم: 736/122)
یہ حدیث نص ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم تین وتر دو سلام سے ہی ادا کرتے تھے، مضارع پر ’کان‘ داخل ہو، تو مخالف قرینہ نہ ہونے کی صورت میں اسے استمرار پر محمول کیا جاتا ہے۔
چنانچہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے ایک وتر الگ پڑھنے کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دائمی عمل بتایا ہے۔ اس بارے میں کچھ روایات پیش کی جاتی ہیں، جو کہ ضعیف و غیر ثابت ہیں:
❀ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں:
إن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يوتر بثلاث ركعات.
”رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تین وتر ادا کرتے تھے۔“
(سنن النسائي: 1699)
سند ”ضعیف “ہے۔ قتادہ ”مدلس “ہیں، سماع کی تصریح نہیں کی۔
❀ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں:
”رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم عشا کے بعد گھر داخل ہوتے تو دو رکعتیں ادا کرتے، پھر دو رکعتیں ان سے بھی لمبی پڑھتے اور ایک سلام سے تین وتر ادا کرتے۔ پھر بیٹھ کر دو رکعت ادا فرماتے، رکوع و سجود بھی بیٹھ کر ہی کرتے۔“
(مسند الإمام أحمد: 155/6-156)
سند حسن بصری رحمہ اللہ کے عنعنہ کی وجہ سے ”ضعیف“ ہے۔
❀ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں:
كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يوتر بثلاث لا يسلم إلا فى آخرهن وهذا وتر أمير المؤمنين عمر بن الخطاب رضى الله عنه وعنه أخذه أهل المدينة.
”رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تین وتر پڑھتے اور سلام فقط آخری رکعت میں پھیرتے تھے، امیر المومنین سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بھی اسی طرح وتر پڑھتے تھے۔ اہل مدینہ نے وتر کا یہ طریقہ انہی سے لیا ہے۔“
(المستدرك للحاكم: 304/1)
سند قتادہ رحمہ اللہ کے عنعنہ کی وجہ سے ”ضعیف“ ہے۔
❀ امام حاکم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
على علو قدره يدلس، ويأخذ عن كل أحد.
”قتادہ رحمہ اللہ بلند قدر و منزلت کے باوجود تدلیس کرتے اور ہر طرح کے راویوں سے روایات لے لیتے تھے۔“
(المستدرك على الصحيحين: 851)
❀ سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
”رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم وتر کی پہلی رکعت میں سورت اعلیٰ، دوسری میں سورت کافرون اور تیسری میں سورت اخلاص کی تلاوت کرتے تھے۔ صرف آخری رکعت میں سلام پھیرتے اور سلام کے بعد تین مرتبہ سبحان الملك القدوس پڑھتے تھے۔“
(سنن النسائي: 1702)
سند قتادہ کے عنعنہ کی وجہ سے ”ضعیف“ ہے۔

فائدہ:

سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
إن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يوتر ثلاث ركعات لا يسلم فيهن حتى ينصرف.
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تین وتر پڑھتے وقت آخر میں سلام پھیرتے۔“
(شرح مشكل الآثار للطحاوي: 368/11، ح: 4501، مسند الشاشي: 1432)
سند حفص بن غیاث کے عنعنہ کی وجہ سے ”ضعیف“ ہے۔
❀ ثابت البنانی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں:
”سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ابو محمد! مجھ سے سیکھ لیں، میں نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ سے سیکھا ہے، آپ کو سیکھنے کے لیے مجھ سے معتبر آدمی نہیں ملے گا۔“ ثابت بنانی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ پھر آپ رضی اللہ عنہ نے مجھے عشاء کی نماز پڑھائی، پھر چھ رکعات نفل ادا کیے۔ ہر دو رکعت پر سلام پھیرتے، پھر آپ رضی اللہ عنہ نے تین وتر پڑھے اور ان کے آخر میں سلام پھیرا۔“
(كنز العمال: 66/8، تاریخ ابن عساکر: 268/9)
سند ”ضعیف “ہے۔ میمون بن عبد اللہ، ابو عبد اللہ ”مجہول “ہے۔
لہذا اس سے حجت پکڑنا درست نہیں۔
(تقريب التهذيب لابن حجر: 7048)
❀ سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
”جب تک اللہ نے چاہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھی، رات کا آخری حصہ ہو گیا اور آپ نے وتر پڑھنے کا ارادہ کیا تو پہلی رکعت میں سورت اعلیٰ اور دوسری میں سورت کافرون پڑھی، پھر قعدہ کیا، قعدہ کے بعد سلام پھیرے بغیر کھڑے ہو گئے، تیسری رکعت میں سورت اخلاص پڑھی۔ قرآت سے فارغ ہوئے، تو تکبیر کہی اور قنوت پڑھی، جو اللہ نے چاہا دعا مانگی، پھر اللہ اکبر کہہ کر رکوع میں چلے گئے۔“
(الإستيعاب لابن عبد البر: 71/4، مصنف ابن أبي شيبة: 302/2)
من گھڑت ہے۔
① ابان بن عیاش ”کذاب اور متروک“ ہے۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ”متروک“ قرار دیا ہے۔
(تقریب التهذيب: 142)
❀ نیز فرماتے ہیں:
ضعيف بالاتفاق.
”بالاتفاق ضعیف ہے۔“
(فتح الباري: 222/9، 239)
ابراہیم نخعی مدلس ہیں، سماع کی تصریح نہیں کی۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے