کیا بچے اور مجنون کے مال پر زکوٰۃ واجب ہے؟
سوال:
کیا بچے اور مجنون کے مال پر بھی زکوٰۃ واجب ہوتی ہے؟
جواب:
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اس مسئلہ میں علماء کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے:
پہلا موقف:
بعض علماء کی رائے ہے کہ:
◈ بچے اور مجنون کے مال پر زکوٰۃ واجب نہیں ہوتی۔
◈ اس کی دلیل یہ ہے کہ بچہ اور مجنون مکلف (شرعی ذمہ دار) نہیں ہوتے۔
◈ چونکہ وہ مکلف نہیں ہیں، اس لیے ان پر زکوٰۃ کی ادائیگی بھی لازم نہیں ہے۔
دوسرا موقف (راجح قول):
بعض علماء کا یہ موقف ہے کہ:
◈ بچے اور مجنون کے مال پر بھی زکوٰۃ واجب ہے۔
◈ یہی قول صحیح (راجح) ہے۔
اس موقف کی دلیل:
◈ زکوٰۃ کو حقوقِ مال میں شمار کیا گیا ہے، اور اس میں مالک کی کیفیت کو نہیں دیکھا جاتا بلکہ مال کو بنیاد بنایا جاتا ہے۔
قرآن مجید میں ارشاد ہے:
﴿خُذ مِن أَمولِهِم صَدَقَةً﴾
(التوبة: 103)
’’ان کے مال میں سے زکوٰۃ قبول کر لو۔‘‘
◈ اس آیت مبارکہ میں وجوب کا محل مال کو قرار دیا گیا ہے، نہ کہ مال کے مالک کو۔
حدیث نبوی ﷺ سے دلیل:
جب نبی کریم ﷺ نے حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو یمن بھیجا تو فرمایا:
«أَعْلِمْهُمْ أَنَّ اللّٰهَ افْتَرَضَ عَلَيْهِمْ صَدَقَةً فِی أَمْوَالِهِمْ تُؤْخَذُ مِنْ أَغْنِيَائِهِمْ وَتُرَدُّ عَلَی فُقَرَائِهِمْ»
(صحیح البخاری، الزکاة، باب وجوب الزکاة، حدیث: ۱۳۹۵، صحیح مسلم، الإيمان، باب الدعاء إلى الشهادتين وشرائع الإسلام، حدیث: ۱۹)
’’ان کو اس بات سے آگاہ کرنا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے مالوں میں زکوٰۃ کو فرض قرار دیا ہے، جو ان کے دولت مندوں سے لے کر ان کے فقیروں میں تقسیم کر دی جائے گی۔‘‘
◈ اس حدیث مبارکہ میں بھی مال کو زکوٰۃ کے وجوب کی بنیاد قرار دیا گیا ہے، نہ کہ عقل یا بلوغ کو۔
نتیجہ:
لہٰذا، بچے اور مجنون کے مال پر بھی زکوٰۃ واجب ہے،
اور ان کی طرف سے ان کا ولی زکوٰۃ ادا کرے گا۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب