کیا میت کی طرف سے قربانی جائز ہے؟ احادیث کا تحقیقی جائزہ اور شرعی حکم
ماخوذ: فتاوی علمیہ، جلد 1 – اصول، تخریج اور تحقیقِ روایات – صفحہ 658

میت کی طرف سے قربانی کا حکم

سوال:

کیا فوت شدگان (میت) کی طرف سے قربانی کرنا جائز ہے؟

جواب:

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

میت کی طرف سے قربانی سے متعلق روایت

سنن ابی داود (کتاب الضحایا، باب الاضحیۃ عن المیت، حدیث 2790) اور
جامع ترمذی (ابواب الاضاحی، باب ما جاء فی الاضحیۃ عن المیت، حدیث 1495)
میں ایک روایت بیان ہوئی ہے۔

یہ روایت شریک بن عبد اللہ القاضی، ابو الحسنا، الحکم اور حنش کی سند سے مروی ہے۔

حنش روایت کرتے ہیں:

"میں نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دیکھا کہ آپ دو مینڈوں کی قربانی کرتے تھے۔ میں نے پوچھا: یہ کیا ہے؟ تو آپ نے فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے وصیت کی تھی کہ میں آپ کی طرف سے قربانی کروں، اس لیے میں آپ کی طرف سے قربانی کرتا ہوں۔”

(انتہی)

اس روایت کی سند کا تجزیہ

◈ اس روایت کی سند ضعیف (کمزور) ہے۔
شریک القاضی "مدلس” (مبہم طریقہ سے روایت کرنے والے) تھے، اور یہ روایت "عن” سے ہے، جو تدلیس کی علامت ہے۔
ابو الحسناء راوی "مجہول” (نامعلوم) ہے۔

(دیکھئے: تقریب التہذیب: 5380، اور آثار السنن، صفحہ 399، تحت حدیث 784)

محدثین کا اس روایت پر تبصرہ

حاکم اور ذہبی رحمہما اللہ دونوں کو اس حدیث کے بارے میں وہم (غلط فہمی) ہوا ہے۔
◈ انھوں نے ابو الحسناء کو الحسن بن الحکم سمجھ لیا اور حدیث کو "صحیح” قرار دے دیا۔
◈ حقیقت میں، یہ دونوں مختلف راوی ہیں، اور ان کا آپس میں کوئی تعلق نہیں۔
حکم بن عتیبہ بھی "مدلس” راوی تھے اور اگر روایت صحیح بھی ہو، تو یہ "عن” سے بیان کی گئی ہے۔
امام ترمذی نے اس روایت کو "غریب” (کمزور اور نایاب) کہا ہے۔

نتیجہ

جب یہ ثابت ہو گیا کہ یہ حدیث ضعیف (کمزور) ہے، تو یہ بات واضح ہو گئی کہ فوت شدگان کی طرف سے قربانی کرنے کا کوئی مستند ثبوت نہیں ہے۔

اگر کوئی میت کی طرف سے قربانی کرنا چاہے؟

◈ اگر کوئی شخص اصرار کرے کہ اسے قربانی کرنی ہی ہے،
◈ تو وہ قربانی کو صدقہ قرار دے اور اس کا سارا گوشت مساکین و فقراء میں تقسیم کر دے،
◈ کیونکہ میت کی طرف سے صدقہ کرنا جائز ہے۔
◈ اس کی تائید میں بے شمار دلائل موجود ہیں۔

واللہ اعلم بالصواب
(شہادت: مارچ 2001ء)

ھذا ما عندي، واللہ أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1