کیا میت کی طرف سے عمرہ کرنا شرعاً جائز ہے؟ مکمل وضاحت
ماخوذ : فتاویٰ ارکان اسلام

سوال

کیا میت کی طرف سے عمرہ کرنا جائز ہے؟

جواب

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

میت کی طرف سے عمرہ ادا کرنا جائز ہے، جیسے کہ اس کی طرف سے حج کرنا بھی جائز ہے۔ اسی طرح میت کی جانب سے طواف اور دیگر تمام نیک اعمال بھی کیے جا سکتے ہیں۔ امام احمد رحمہ اللہ کا کہنا ہے کہ:

"ہر وہ نیکی جس کا ثواب کسی زندہ یا مردہ مسلمان کو بخش دیا جائے، وہ اس سے فائدہ اٹھاتا ہے۔”
(المصدر: فتاویٰ ارکان اسلام)

میت کے لیے ایصال ثواب کی سب سے افضل صورت: دعا

تاہم، میت کے لیے دعا کرنا سب سے بہتر اور افضل عمل ہے۔ اس کی دلیل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان ہے:

«إِذَا مَاتَ الْإِنْسَانُ انْقَطَعَ ُ عَمَلُهُ إِلَّا مِنْ ثَلَاثٍَ،ْ صَدَقَةٍ جَارِيَةٍ أَوْ عِلْمٍ يُّنْتَفَعُ بِه أَوْ وَلَدٍ صَالِحٍ يَدْعُو لَه»
(صحيح مسلم، الوصية باب ما يلحق الانسان من الثواب بعد وفاته، ح: ۱۶۳۱)

یعنی:
"جب انسان فوت ہو جاتا ہے تو اس کا عمل ختم ہو جاتا ہے سوائے تین چیزوں کے: صدقہ جاریہ، وہ علم جس سے فائدہ حاصل کیا جائے، اور نیک اولاد جو اس کے لیے دعا کرے۔”

حدیث کا مفہوم اور استدلال

اس حدیث سے واضح ہوتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نہیں فرمایا کہ "نیک اولاد اس کے لیے عمل کرے”، حالانکہ حدیث عمل کے سیاق میں ہے۔ اگر اولاد کی طرف سے نیک عمل کا فائدہ میت کو پہنچانا مطلوب ہوتا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم ضرور فرماتے:
"اور نیک اولاد جو اس کے لیے عمل کرے۔”

البتہ، اگر کوئی شخص کوئی نیک عمل کرے اور اس کا ثواب کسی مسلمان کو ہدیہ کرے، تو یہ جواز کے دائرے میں آتا ہے۔

فاضل مفتی صاحب کے جواب پر نظرِ ثانی

➊ فاضل مفتی صاحب رحمہ اللہ کا یہ فتویٰ دوبارہ جائزہ لینے کا متقاضی ہے، کیونکہ میت کو ایصالِ ثواب کی صرف وہی صورتیں شرعاً جائز ہوں گی جن کا ثبوت صحیح احادیث سے ملتا ہے۔ ہر نیک عمل کے ذریعہ میت کو ثواب پہنچانا درست نہیں۔

عمرہ کا شمار ان اعمال میں نہیں ہوتا جن سے میت کو فائدہ پہنچانے کی صراحت کسی صحیح حدیث میں آئی ہو۔ صرف غلام آزاد کرنا، صدقہ دینا، حج کرنا اور دعا کرنا وہ اعمال ہیں جن کا ثبوت احادیث سے ملتا ہے اور ان سے میت کو فائدہ ہوتا ہے۔

➋ فاضل مفتی صاحب کا یہ استدلال درست ہے کہ حدیث میں "عمل” کے سیاق میں دعا کا ذکر ہے، نہ کہ نیک عمل کرنے کا۔ اس سے وہی بات ثابت ہوتی ہے جو اوپر ذکر کی گئی ہے۔

➌ آخری بات کہ ہر نیک عمل کا ثواب کسی کو ہدیہ کیا جا سکتا ہے، درست معلوم نہیں ہوتی اور یہ خود حدیث کے مفہوم کے بھی خلاف ہے۔ فاضل مفتی صاحب نے جو پہلے بات بیان کی، وہی صحیح اور راجح رائے ہے، کہ ہر عمل صالح کے ذریعے ایصال ثواب نہیں کیا جا سکتا۔ یہی موقف درست اور قابلِ قبول ہے۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1