کیا میت کی طرف سے روزے رکھنا جائز ہے یا فدیہ دینا؟ مکمل فتویٰ
ماخوذ : فتاوی علمیہ جلد3۔روزہ، صدقۂ فطر اور زکوٰۃ کے مسائل-صفحہ143

روزوں کی قضا یا فدیہ؟ – مکمل تحقیقی و مدلل فتویٰ

سوال

اللہ تعالیٰ آپ کو قرآن و سنت کی دعوت و تبلیغ اور اسلام کی حفاظت کے لیے دراز عمر عطا فرمائے، آمین۔
شیخ صاحب! میں نے اپنے استاد محترم شیخ القرآن والحدیث علامہ عبد السلام صاحب رستمی السلفی سے سنا ہے کہ اگر کوئی شخص فوت ہو جائے اور اس پر رمضان کے روزے باقی ہوں، تو اس میت کے ورثاء اس کی طرف سے روزے رکھ سکتے ہیں۔ اور اگر کوئی شخص فدیہ دے دے تو یہ بھی جائز ہے۔ البتہ میت کی طرف سے روزے رکھنا حدیثِ مرفوع سے ثابت ہے جبکہ فدیہ والی روایت موقوف ہے۔

لیکن شیخ الحدیث مولانا گوہر رحمٰن رحمۃ اللہ علیہ نے "فتاوی تفہیم المسائل” جلد نمبر 1 صفحہ نمبر 142 پر دو احادیث نقل کی ہیں کہ:

"میت کے لیے نہ کوئی نماز پڑھ سکتا ہے اور نہ روزے رکھ سکتا ہے۔”

یہ بات درست ہے کہ نماز کا فدیہ احادیث سے ثابت نہیں اور نہ ہی کوئی شخص میت کے لیے نمازیں پڑھ سکتا ہے۔ تاہم، اگر کوئی شخص سخت بیمار ہو اور رمضان کے روزے نہ رکھ سکا ہو اور اسی حالت میں فوت ہو گیا ہو، تو اس کے لیے اس کا ولی روزے رکھ سکتا ہے۔ لیکن شیخ گوہر رحمٰن رحمۃ اللہ علیہ کا کہنا ہے کہ میت کی طرف سے اس کا وارث یا ولی روزے بھی نہیں رکھ سکتا۔

میں اس مسئلہ میں دونوں طرف کے دلائل بھی پیش کرنا چاہتا ہوں تاکہ شیخ زبیر علی زئی صاحب ان کا جائزہ لے کر راجح قول اور تطبیق و تحقیق پیش فرمائیں کیونکہ اس مسئلہ میں بظاہر تضاد پایا جاتا ہے۔

شیخ القرآن علامہ عبدالسلام صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے دلائل

1. حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی روایت

"من مات وعليه صوم صام عنه وليه”
"جو شخص مر جائے اور اس پر روزے ہوں تو اس کی طرف سے اس کا ولی روزے رکھے۔”
(صحیح البخاری ج1 ص262، صحیح مسلم ج1 ص362)

2. حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت

ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور عرض کیا:
"اے اللہ کے رسول! میری ماں مر گئی اور اس پر ایک مہینہ کے روزے تھے، کیا میں اس کی طرف سے روزے رکھوں؟”
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"اگر تیری ماں پر قرض ہوتا تو کیا تو اسے ادا کرتا؟”
اس نے کہا: "جی ہاں!”
تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"اللہ تعالیٰ کا قرض ادا کیے جانے کے زیادہ لائق ہے۔”
(صحیح مسلم ج1 ص362)

شیخ گوہر رحمٰن رحمۃ اللہ علیہ کے دلائل (تفہیم المسائل سے)

1. حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قول

"لا يصلي أحد عن أحد، ولا يصوم أحد عن أحد، ولكن يطعم عنه "
"کوئی شخص دوسرے کی جگہ نہ نماز پڑھ سکتا ہے اور نہ روزے رکھ سکتا ہے۔ لیکن اس کی طرف سے فدیہ یعنی کھانا کھلایا جائے۔”
(سنن کبری للبیہقی ج4 ص257، مشکل الآثار ج3 ص141، نصب الرایہ ج2 ص463، وقال ابن حجر: اسنادہ صحیح، الدرایہ ص177)

2. حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قول

"لا يُصلين أحد عن أحد، ولا يصومن أحد عن أحد، ولكن إن كنت فاعلًا تصدقت عنه أو أهديت”
"کوئی شخص کسی دوسرے کی طرف سے نماز نہ پڑھے اور نہ روزے رکھے، البتہ اگر تم کچھ کرنا چاہتے ہو تو اس کی طرف سے صدقہ اور قربانی دے دو۔”
(سنن کبری للبیہقی ج4 ص257، نصب الرایہ ج2 ص463، مشکل الآثار ج3 ص141، وقال ابن حجر: اسنادہ صحیح، الدرایہ ص177)

جواب 

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

حدیث ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا

"من مات وعليه صوم صام عنه وليه”
"جو شخص فوت ہو جائے اور اس پر روزے ہوں تو اس کا ولی اس کی طرف سے روزے رکھے گا۔”
(صحیح بخاری 1952، صحیح مسلم 1147، ترقیم دارالسلام: 2692)

تشریح:
اس حدیث میں "اس پر روزے ہوں” سے مراد نذر کے روزے ہیں، اور اس کی تین دلائل پیش کی گئی ہیں:

پہلی دلیل:

حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت:

ایک عورت نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا:
"میری ماں فوت ہو گئی ہے اور اس پر نذر کے روزے تھے، کیا میں ان کی طرف سے روزے رکھوں؟”
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"فصومي عن أمك”
"تو اپنی ماں کی طرف سے روزے رکھ۔”
(صحیح مسلم 1148، ترقیم دارالسلام: 2696)

دوسری روایت میں مذکور ہے:
ایک عورت نے سمندری سفر کیا اور ایک ماہ روزے کی نذر مانی، مگر فوت ہوگئی۔
اس کی بہن نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا تو آپ نے اسے روزے رکھنے کا حکم دیا۔
(السنن الصغری للنسائی ج7 ص20 ح3847، صحیحہ ابن خزیمہ: 2054)

امام ابو داود رحمۃ اللہ علیہ نے اس پر "باب في قضاء النذر عن الميت” کا عنوان قائم کیا۔
(حدیث 3308، طبع دارالسلام ص479۔480)

نتیجہ:
یہ تمام دلائل اس بات کی وضاحت کرتے ہیں کہ حدیث سے مراد نذر کے روزے ہیں۔

دوسری دلیل:

راویہ حدیث حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا فتویٰ:

"میری ماں فوت ہو گئی ہیں اور ان پر رمضان کے روزے باقی تھے، کیا میں رکھ سکتی ہوں؟”
انہوں نے فرمایا:
"نہیں! ہر روزے کے بدلے میں ایک مسکین کو کھانا کھلا دو۔ یہ تمھارے روزے رکھنے سے بہتر ہے۔”
(شرح مشکل الآثار للطّحاوی 6/178، سندہ حسن، تصحیح: الجوہر النقی 4/257)

نتیجہ:
عام رمضان کے روزے میت کی طرف سے ادا نہیں کیے جائیں گے، صرف نذر کے روزے رکھے جا سکتے ہیں۔

تیسری دلیل:

حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا فتویٰ:

"لا يصلي أحد عن أحد، ولا يصوم أحد عن أحد، ولكن يطعم عنه مكان كل يوم مدا من حنطة”
"کوئی شخص دوسرے کی طرف سے نماز نہ پڑھے اور نہ روزے رکھے، بلکہ ہر دن کے بدلے میں ایک مد گندم کا فدیہ دے۔”
(السنن الکبری للنسائی 2/175 ح2918، سندہ صحیح، تصحیح: ابن حجر، الدرایہ 1/283 ح375)

نوٹ:
ایک مد = 53 تولے

ائمہ کرام کے اقوال

امام احمد بن حنبل اور امام اسحاق بن راہویہ:

"إذا كان على الميت نذر صيام يصام عنه، وإذا كان عليه قضاء رمضان أُطعم عنه”
(سنن ترمذی 718، مسائل الإمام أحمد و إسحاق 1/288 فقرہ 679)

امام ابو العباس احمد بن عمر القرطبی:

"احمد، اسحاق، ابو ثور، لیث، ابو عبید اور اہلِ ظاہر کا یہی موقف ہے لیکن انہوں نے اسے نذر کے روزے تک محدود رکھا۔”
(المفهم ج3 ص208 تحت ح1014)

شیخ گوہر رحمٰن رحمۃ اللہ علیہ کے دلائل کی تحقیق

حضرت ابن عباس کی روایت:

جن کتب (سنن کبری، مشکل الآثار، نصب الرایہ، الدرایہ) میں ذکر کیا گیا ہے، ان میں "قال رسول اللہ” کے الفاظ نہیں ہیں، بلکہ یہ صرف ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا فتویٰ ہے۔
(نصب الرایہ 2/463)

حضرت ابن عمر کی روایت:

یہ روایت بھی مرفوع نہیں بلکہ موقوف ہے، جیسا کہ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا:
"الصحيح عن ابن عمر موقوف”
(الدرایہ 1/283 ح375)

بیہقی کی صحیح سند سے روایت ہے:
"لايصوم أحد عن أحد ولكن تصدقوا عنه من ماله للصوم لكل يوم مسكينا”
(السنن الکبری 4/254)

اضافی فوائد

◈ امام مالک کی روایت سنداً ضعیف ہے (روایۃ یحییٰ بن یحییٰ)
◈ امام ابو الجہم العلاء بن موسیٰ کی صحیح روایت:

"عبد اللہ بن عمر کہتے تھے: نہ کوئی دوسرے کی طرف سے روزہ رکھے، نہ حج کرے۔”
(جزء ابی الجہم 24، سندہ صحیح)

تنبیہ:
"حج بدل” احادیث مرفوعہ صحیحہ سے جائز ہے بشرطیکہ ادا کرنے والے نے پہلے فرض حج کیا ہو۔
(التمہید 9/133)

نتیجہ

میت کی طرف سے نذر کے روزے رکھنا صحیح احادیث سے ثابت ہے، لیکن رمضان کی قضا کے بدلے صرف فدیہ (کھانا کھلانا) دینا شرعاً درست ہے۔ موقوف اقوال کو مرفوع قرار دینا غلط ہے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے