کیا میت کو غسل دینے یا اٹھانے سے غسل یا وضو واجب ہے؟ حدیث کی تحقیق
ماخوذ : فتاویٰ راشدیہ، صفحہ نمبر 394

سوال:

حدیث:
’’من حمل الميت فعليه الوضوء ومن غسله فليغتسل‘‘
(جس نے میت کو اٹھایا اس پر وضو ہے، اور جس نے اسے غسل دیا اس پر غسل ہے)

سوال:

محدثین کرام اس حدیث کے بارے میں کیا فرماتے ہیں؟ کیا یہ حدیث صحیح ہے یا ضعیف؟ اور آپ کی اس بارے میں کیا رائے ہے؟

جواب:

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

کچھ روایات ایسی وارد ہوئی ہیں جن میں بیان کیا گیا ہے کہ جو شخص میت کو غسل دے، اس پر غسل کرنا لازم ہے، اور جو شخص میت کو اٹھائے، اس پر وضو کرنا واجب ہے۔
تاہم راقم الحروف کی تحقیق میں یہ تمام روایات درجۂ ثبوت کو نہیں پہنچتیں۔ زیادہ سے زیادہ یہ روایات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے اقوال کے طور پر ثابت ہیں، نہ کہ رسول اللہ ﷺ کی مرفوع احادیث کے طور پر۔ اس مسئلے کی مختصر تفصیل درج ذیل ہے:

امام ترمذی رحمہ اللہ کی تحقیق:

امام ترمذی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب "العلل الکبیر” میں ایک عنوان قائم فرمایا:

**((ما جاء في الغسل من غسل ميتا))**

پھر فرمایا:
**((قال أبو عيسى: سألت محمدًا عن هذا الحديث من غسل ميتًا فليغتسل، فقال: روى بعضهم عن سهيل بن أبي صالح، عن إسحق مولى زائدة، عن أبي هريرة رضي الله عنه موقوفًا.))**

یعنی:
میں نے امام محمد بن اسماعیل بخاری رحمہ اللہ سے اس حدیث "من غسل میتاً فلیغتسل” کے بارے میں سوال کیا تو امام بخاریؒ نے فرمایا:
یہ روایت اسحاق مولیٰ زائدہ (جو کہ ثقہ راوی ہے) نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے موقوفاً نقل کی ہے، یعنی یہ روایت سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا قول ہے، نہ کہ مرفوع (رسول اللہ ﷺ کی حدیث)۔

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کی وضاحت:

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اپنی کتاب فتح الباری میں لکھتے ہیں:

**ابو صالح** نے یہ روایت **ابوہریرہ رضی اللہ عنہ** سے **مرفوعاً** بیان کی ہے، لیکن یہ روایت **معلول** ہے کیونکہ **ابو صالح** نے **ابوہریرہ رضی اللہ عنہ** سے یہ روایت **براہ راست نہیں سنی**۔

امام ترمذی رحمہ اللہ کا مزید قول:

امام ترمذی رحمہ اللہ مزید فرماتے ہیں (علل کبیر: ج 1، ص 42-43):

**((قال محمد: إن أحمد بن حنبل وعلي بن عبد الله قالا: لا يصح من هذا الباب شيء. وقال محمد: وحديث عائشة رضي الله عنها في هذا الباب ليس بذلك.))**

یعنی:
امام بخاری رحمہ اللہ نے فرمایا کہ:
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ اور
علی بن عبد اللہ بن مدینی رحمہ اللہ
دونوں کا کہنا ہے کہ اس باب میں کوئی بھی روایت صحیح ثابت نہیں۔
● مزید فرمایا:
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے بھی اس باب میں ایک روایت منقول ہے (جو سنن ابوداؤد میں موجود ہے)، لیکن وہ بھی صحیح نہیں ہے۔

امام ابوداؤد رحمہ اللہ کا موقف:

خود امام ابوداؤد رحمہ اللہ نے اس حدیث کو ضعیف قرار دیا ہے۔

امام خطابی رحمہ اللہ کی رائے:

امام خطابی اپنی کتاب معالم السنن (شرح سنن ابی داود) میں فرماتے ہیں:

"في إسناد الحديث مقال”
یعنی: اس حدیث کی سند میں کلام ہے (یعنی سند ضعیف ہے)۔

امام ابن ابی حاتم رحمہ اللہ کی نقل:

امام ابن ابی حاتم نے اپنی کتاب "العلل” (ج1، ص 351) میں اپنے والد امام حاتم رازی رحمہ اللہ سے نقل کیا ہے:

**((الصواب عندي: أبو هريرة رضي الله عنه موقوف.))**

یعنی: میرے نزدیک صحیح بات یہی ہے کہ یہ قول ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا ہے، یعنی موقوف ہے، مرفوع نہیں۔

امام بیہقی رحمہ اللہ کی تحقیق:

امام بیہقی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب السنن الکبریٰ (جلد 1، صفحہ 302) میں لکھا:

**((الصحيح موقوف على أبي هريرة، لأن الروايات المرفوعة في هذا الباب عن أبي هريرة غير قوية لجهالة بعض رواتها وضعف بعضهم.))**

یعنی:
صحیح بات یہی ہے کہ یہ روایت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ پر موقوف ہے کیونکہ اس باب میں جو مرفوع روایات بیان کی گئی ہیں، ان میں بعض راوی مجہول اور بعض ضعیف ہیں، لہٰذا وہ قوی (درست) نہیں۔

امام ابن الجوزی رحمہ اللہ کا فیصلہ:

امام ابن الجوزی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب العلل المتناهية (جلد1، صفحہ 378) میں فرمایا:

**((هذه الأحاديث كلها لا يصح.))**

یعنی:
یہ تمام احادیث صحیح نہیں ہیں۔

خلاصۂ تحقیق:

تمام محدثین کرام کی تصریحات سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اس موضوع پر کوئی بھی مرفوع حدیث صحیح ثابت نہیں۔
زیادہ سے زیادہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا قول موقوفاً ثابت ہوتا ہے، اور محدثین کے اصول کے مطابق صحابی کا قول حجت نہیں ہوتا۔

راقم الحروف کی تحقیق:

لہٰذا راقم الحروف کی تحقیق یہ ہے کہ:
◈ نہ تو میت کو غسل دینے والے پر غسل واجب ہے،
◈ اور نہ ہی میت کو اٹھانے والے پر وضو کرنا واجب ہے۔

ھٰذا ما عندی، واللہ أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے