کیا میت قبر پر آنے والے کو پہچانتی ہے؟ قرآن و حدیث کی روشنی میں
ماخوذ : فتاویٰ راشدیہ، صفحہ نمبر 385

سوال

جب کوئی شخص قبر پر زیارت کے لیے آتا ہے تو کیا قبر میں مدفون شخص کو یہ علم ہوتا ہے کہ فلاں شخص آیا ہے یا نہیں؟

جواب

الحمد لله، والصلاة والسلام على رسول الله، أما بعد!

یہ سمجھ لینا چاہیے کہ عالمِ برزخ کے معاملات وہ ہیں جن کے بارے میں محض ظن و قیاس کی بنیاد پر کچھ کہنا نہایت خطرناک ہے۔ عالمِ برزخ کے متعلق صرف وہی بات کہی جا سکتی ہے جو کتاب و سنت میں رسول اللہ ﷺ سے منقول ہو۔ اس کے علاوہ کچھ کہنا اندھیرے میں تیر چلانے کے مترادف ہے۔

اس مسئلے میں کسی صحیح حدیث کا ثبوت نہیں ملتا، اس لیے قیاس آرائی بالکل نامناسب ہے۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ حدیث میں ہے کہ میت قبر پر آنے والے پہچانتی ہے، مگر یہ احادیث صحت کے درجے تک نہیں پہنچتیں۔ ان کی اسناد بھی قابلِ اعتماد نہیں، اس لیے ان کی بنیاد پر اس مسئلے کا عقیدہ رکھنا درست نہیں۔ بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ میت کو کوئی احساس نہیں ہوتا اور نہ ہی اس کی روح قبر میں موجود ہوتی ہے۔

قرآن مجید سے دلائل

اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

﴿وَمِن وَرَ‌آئِهِم بَرْ‌زَخٌ إِلَىٰ يَوْمِ يُبْعَثُونَ﴾ (المؤمنون: ١٠٠)
”یعنی فوت ہونے والوں کے اور دنیا کے درمیان ایک مضبوط اور ناقابلِ عبور رکاوٹ قائم کر دی جاتی ہے جو قیامت کے دن تک باقی رہتی ہے۔“

اگر میت قبر پر آنے والے کو دیکھتی، پہچانتی یا اس کی آواز سنتی تو اس کا مطلب یہ ہوتا کہ دنیا سے اس کا تعلق ختم نہیں ہوا، جب کہ قرآن بتا رہا ہے کہ اس کے اور دنیا کے درمیان ایک برزخ حائل ہے۔

اسی طرح فرمایا:

﴿وَمَآ أَنتَ بِمُسْمِعٍ مَّن فِى ٱلْقُبُورِ﴾ (فاطر: ٢٢)
”یعنی آپ ﷺ اہلِ قبور کو اپنی آواز نہیں سنا سکتے۔“

یہ آیات صاف بتاتی ہیں کہ میت کا دنیا سے تعلق منقطع ہو چکا ہے۔

احادیث سے دلائل

حدیث میں ہے کہ جب میت کو قبر میں رکھا جاتا ہے تو اس کی روح لوٹائی جاتی ہے اور وہ لوگوں کی جوتیوں کی آہٹ سنتی ہے۔ اسی وقت فرشتے (منکر و نکیر) اس سے سوال و جواب کرتے ہیں۔ اس کے بعد مؤمن کو کہا جاتا ہے:

"نم كنومة العروس”
یعنی دلہن کی نیند کی طرح آرام سے سو جا، یہاں تک کہ قیامت کا دن آ جائے۔

اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ روح کا لوٹایا جانا صرف سوال و جواب کے وقت کے لیے ہے، ہمیشہ کے لیے نہیں۔ لیکن جو عقیدہ مشہور ہے کہ میت کی روح ہمیشہ قبر میں رہتی ہے اور ہر آنے والے کو پہچانتی ہے، یہ صریحاً ان دلائل کے خلاف ہے۔

رسول اللہ ﷺ کے متعلق خاص حکم

صحیح حدیث میں آتا ہے:

((رد الله علي روحي حتى أرد عليه السلام)) رواہ أبو داود والبيهقي وأحمد بإسناد حسن عن أبي هريرة رضي الله عنه

”یعنی جب کوئی میری قبر پر کھڑے ہو کر سلام کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ میری روح کو لوٹا دیتا ہے تاکہ میں اس کے سلام کا جواب دوں۔“

یہ حدیث واضح کرتی ہے کہ آپ ﷺ کی روح بھی ہر وقت جسمِ اطہر میں موجود نہیں رہتی بلکہ سلام کے وقت واپس لوٹائی جاتی ہے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ کسی کی آمد یا سلام کو پہچاننے کے لیے روح کا جسم میں موجود ہونا ضروری ہے۔

اگر دوسرے لوگوں کے بارے میں کہا جائے کہ ان کی روح ہمیشہ قبر میں موجود رہتی ہے اور وہ آنے والے کو پہچان لیتے ہیں تو اس کا مطلب یہ نکلتا ہے کہ ان کا مقام، نعوذباللہ، رسول اللہ ﷺ سے بلند ہو گیا، کیونکہ آپ ﷺ کی روح تو مخصوص وقت پر لوٹائی جاتی ہے جبکہ باقی کی ہر وقت موجود ہے۔ یہ سوئے ادب ہے۔

اعتراض اور اس کا جواب

اگر کوئی یہ کہے کہ جیسے آپ ﷺ کے ساتھ سلام کے وقت روح کا اعادہ ہوتا ہے، ایسے ہی دوسروں کی روح بھی قبر پر آنے والے کے وقت لوٹا دی جاتی ہے، تو اس کا جواب یہ ہے:

◈ اس کے لیے قرآن و حدیث سے کوئی دلیل نہیں۔
◈ رسول اللہ ﷺ کے بارے میں نص موجود ہے، دوسروں کے لیے نہیں۔
◈ جب دلیل موجود نہ ہو تو ایسا عقیدہ رکھنا دین میں اپنی طرف سے بات گھڑنے کے مترادف ہے جو "رجم بالغیب” ہے۔
◈ اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی سخت بے ادبی ہے، کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کا خاص انعام صرف رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ہے۔

ایک اور شبہ اور اس کا جواب

کچھ لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ اگر روح کا اعادہ نہ بھی ہو، تو ممکن ہے کہ روح کا جسم کے ساتھ کوئی تعلق قائم رہتا ہو، جیسے ریڈیو اور آواز کے درمیان تعلق ہوتا ہے۔ اس تعلق کے ذریعے میت قبر پر آنے والے کو پہچان لیتی ہے۔

اس کا جواب یہ ہے:

◈ یہ تعلق صرف رسول اکرم ﷺ کی روح مبارک کے ساتھ خاص ہے۔
◈ جب آپ ﷺ کو سلام کا جواب دینے کے لیے روح کا اعادہ ضروری ہے تو باقی لوگوں کی ارواح اس درجہ پر کیسے فائز ہو گئیں کہ انہیں اپنی قبر پر آنے والے کا احساس ہو؟
◈ یہ بات بالکل ظاہر البطلان ہے۔

نتیجہ

خلاصہ یہ ہے کہ میت قبر پر آنے والے کو نہ پہچانتی ہے اور نہ ہی اس کے آنے کا علم رکھتی ہے۔

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے