کیا موت نکاح ختم کرتی ہے؟ مکمل شرعی و اصولی وضاحت
تحریر: قاری اسامہ بن عبدالسلام

نکاح، جو شریعتِ اسلامیہ میں ایک مقدس اور مستقل رشتہ ہے

آج کے دور میں بعض افراد کے نزدیک اتنا کمزور اور ناپائیدار سمجھا جاتا ہے کہ وہ معمولی وجوہات کی بنیاد پر اس کے خاتمے کا فتویٰ صادر کر دیتے ہیں۔ یہاں تک کہ بعض لوگ یہ گمان رکھتے ہیں کہ شوہر یا بیوی کی وفات نکاح کو ختم کر دیتی ہے، جیسے طلاق واقع ہو گئی ہو۔
یہ تصور فقہی اصولوں سے ناواقفیت اور گمراہی پر مبنی ہے۔ اس کی تردید درج ذیل دلائل کی روشنی میں کی جا رہی ہے:

📌 دلیل نمبر 1: اگر موت سے نکاح ختم ہو جائے، تو وراثت کا کوئی جواز نہیں رہتا

قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:

"وَلَكُمْ نِصْفُ مَا تَرَكَ أَزْوَاجُكُمْ إِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُنَّ وَلَدٌ”
“اور اگر تمہاری بیویاں اولاد چھوڑ کر نہ مری ہوں تو ان کے چھوڑے ہوئے مال کا آدھا تمہیں ملے گا…”
(النساء: 12)

اس آیت سے درج ذیل باتیں واضح ہوتی ہیں:
◈ بیوی کی وفات پر شوہر کو وراثت ملتی ہے۔
◈ شوہر کی وفات پر بیوی کو بھی حقِ وراثت حاصل ہوتا ہے۔
◈ اگر موت کے بعد نکاح ختم ہو جاتا، تو زوجین ایک دوسرے کے وارث نہ ہوتے، کیونکہ وراثت کا تعلق زندہ رشتہِ زوجیت سے ہے۔
چونکہ قرآنِ کریم نے وراثت کا حق واضح طور پر بیان کیا ہے، اس لیے یہ تصور کہ موت نکاح کو توڑ دیتی ہے، قرآن کے خلاف ہوگا۔

📌 دلیل نمبر 2: موت کو طلاق شمار کرنا فقہی اصولوں کے خلاف ہے

بعض افراد یہ نظریہ رکھتے ہیں کہ اگر کسی مرد نے اپنی بیوی کو دو طلاقیں دے دی ہوں اور پھر اس کی وفات ہو جائے، تو اس کی موت کو تیسری طلاق شمار کیا جائے گا، اور اس طرح بیوی مطلقہ ہو جائے گی۔

یہ تصور سراسر غلط ہے، کیونکہ:
◈ موت طلاق نہیں ہوتی۔
◈ طلاق ایک اختیاری، شعوری، اور الفاظ سے ادا کی جانے والی چیز ہے۔
◈ موت ایک غیر اختیاری اور قدرتی عمل ہے، جو طلاق کے مفہوم اور شرائط کے بالکل برخلاف ہے۔

📚 امام ابن قدامہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"فَإِنْ مَاتَ أَحَدُهُمَا لَمْ يَقَعِ الطَّلَاقُ، لِأَنَّهُ انْقِطَاعٌ غَيْرُ مُقْتَضٍ لِلطَّلَاقِ.”
"اگر دونوں میں سے کوئی ایک مر جائے تو طلاق واقع نہیں ہوتی، کیونکہ موت ایسا انقطاع ہے جو طلاق کو لازم نہیں کرتا۔”
(المغني لابن قدامة، 7/330)

📌 دلیل نمبر 3: موت کے بعد ایک دوسرے کو غسل دینا جائز ہے

اگر موت نکاح کو ختم کر دیتی، تو بیوی کے لیے شوہر کو، اور شوہر کے لیے بیوی کو غسل دینا ناجائز ہونا چاہیے تھا، کیونکہ اجنبی کو غسل دینا شریعت میں ممنوع ہے۔

لیکن جمہور فقہاء و ائمہ کا متفقہ موقف یہ ہے کہ:
◈ شوہر اپنی فوت شدہ بیوی کو غسل دے سکتا ہے۔
◈ بیوی اپنے فوت شدہ شوہر کو غسل دے سکتی ہے۔

📚 فتاویٰ لجنہ دائمہ (سعودی عرب کی مستقل فتوی کمیٹی) کے مطابق:
"يجوز للمرأة أن ترى زوجها بعد موته، ويجوز لكل واحد من الزوجين تغسيل الآخر بعد موته، على القول الصحيح من أقوال العلماء.”
"عورت اپنے شوہر کو موت کے بعد دیکھ سکتی ہے، اور صحیح قول کے مطابق دونوں میں سے ہر ایک دوسرے کو غسل دے سکتا ہے۔”
(فتوى رقم 2273)

📚 امام نووی رحمہ الله فرماتے ہیں:
"فيجوز للزوج أن يغسل زوجته، ولها أن تغسله، وهو مذهب مالك والشافعي وأحمد.”
"شوہر کے لیے بیوی کو غسل دینا جائز ہے، اور بیوی کے لیے شوہر کو، یہ امام مالک، شافعی، اور احمد کا مذہب ہے۔”
(المجموع للنووي، 5/143)

📌 دلیل نمبر 4: نبی کریم ﷺ کا حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے ارشاد

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:
"لو مُتُّ قبلك، فغسلتني وكفنتني…”
"اگر میں آپ سے پہلے مر گئی، تو آپ مجھے غسل دیں اور کفن دیں۔”
(مسند أحمد: 25324، بإسناد حسن)
یہ حدیث اس حقیقت کو واضح کرتی ہے کہ زوجین کا تعلق موت کے بعد بھی احترام و وقار کے ساتھ قائم رہتا ہے۔

✅ خلاصہ کلام:

◈ نکاح ایک معتبر اور دائمی رشتہ ہے، جو موت کے ساتھ ختم نہیں ہوتا، بلکہ اس کے شرعی اثرات (جیسے وراثت، عدت، غسل) برقرار رہتے ہیں۔
◈ موت کو طلاق کے مترادف سمجھنا فقہی اصولوں کے منافی ہے۔
◈ زوجین ایک دوسرے کو موت کے بعد غسل دے سکتے ہیں، اس پر صحابہ کرام اور جمہور فقہاء کا عمل و فتویٰ موجود ہے۔
◈ نکاح کے حقوق و احکام موت کے بعد بھی جاری رہتے ہیں۔

❖ دعا:

اللَّهُمَّ فَقِّهْنَا فِي الدِّينِ، وَجَنِّبْنَا الزَّلَلَ وَالزَّيغَ، وَارْزُقْنَا فَهْمَ السَّلَفِ الصَّالِحِ، آمِينَ يَا رَبَّ الْعَالَمِينَ۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1