کیا موت طلاق ہے؟ نکاح کا شرعی اور عقلی موقف
تحریر: قاری اسامہ بن عبدالسلام

📌 تمہید:

اسلامی شریعت میں نکاح صرف ایک وقتی یا قانونی معاہدہ نہیں بلکہ ایک باوقار، دائمی، اور روحانی رشتہ ہے۔ بعض افراد کا یہ گمان ہوتا ہے کہ شوہر یا بیوی کے انتقال کے ساتھ ہی یہ رشتہ ختم ہو جاتا ہے، گویا طلاق واقع ہو گئی ہو۔ تاہم، قرآن، سنت، اجماع صحابہ اور عقل اس تصور کی تائید نہیں کرتے۔

آئیے ہم اس مسئلہ کا جائزہ لیتے ہیں دلائل کی روشنی میں:

 قرآن مجید کی روشنی میں

🌿 (الف) وراثت کا حق:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

﴿ وَلَكُمْ نِصْفُ مَا تَرَكَ أَزْوَاجُكُمْ ﴾
ترجمہ: "اور تمہارے لیے تمہاری بیویوں کے ترکہ میں سے آدھا ہے…”
(سورۃ النساء: 12)

﴿ وَلَهُنَّ ٱلرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْتُمْ ﴾
ترجمہ: "اور ان (بیویوں) کے لیے تمہارے ترکہ میں سے چوتھائی ہے…”
(سورۃ النساء: 12)

✅ یہ دونوں آیات اس بات کا کھلا ثبوت ہیں کہ نکاح کا رشتہ موت کے بعد بھی برقرار رہتا ہے، کیونکہ وراثت نکاح کی بنیاد پر ملتی ہے، طلاق یا اجنبیت کی بنیاد پر نہیں۔

🌿 (ب) عدّت کا حکم:

﴿ وَٱلَّذِينَ يُتَوَفَّوْنَ مِنكُمْ وَيَذَرُونَ أَزْوَٰجًۭا يَتَرَبَّصْنَ بِأَنفُسِهِنَّ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍۢ وَعَشْرًۭا ﴾
ترجمہ: "اور تم میں سے جو فوت ہو جائیں اور بیویاں چھوڑ جائیں، وہ عورتیں چار مہینے دس دن انتظار کریں (عدت گزاریں)…”
(البقرۃ: 234)

✅ اگر نکاح مکمل طور پر ختم ہو جاتا تو عدت فرض نہ کی جاتی، کیونکہ عدت دراصل نکاح کے تسلسل کا مظہر ہے۔

 سنتِ نبوی ﷺ سے دلائل

🌸 (الف) نبی ﷺ کا حضرت عائشہؓ سے محبت بھرا مکالمہ:

قَالَتْ عَائِشَةُ: لَوْ مِتَّ قَبْلِي، لَغَسَّلْتُكَ، وَكَفَّنْتُكَ
(مسند أحمد: 25324)

ترجمہ: حضرت عائشہؓ نے فرمایا: "اگر آپ مجھ سے پہلے فوت ہو جاتے تو میں آپ کو غسل دیتی اور کفن دیتی۔”

✅ اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ بیوی اپنے مرحوم شوہر کو غسل دے سکتی ہے، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ زوجیت کا رشتہ موت کے بعد بھی باقی رہتا ہے۔

🌸 (ب) حضرت علیؓ کا حضرت فاطمہؓ کو غسل دینا:

حضرت علیؓ نے اپنی بیوی حضرت فاطمہؓ کو وفات کے بعد خود غسل دیا۔
(المدونة الكبرى، امام مالک)

✅ اگر نکاح موت کے ساتھ ختم ہو جاتا تو حضرت علیؓ ایسا عمل نہ کرتے۔ صحابی کا عمل شرعی دلیل ہوتا ہے۔

 اجماعِ صحابہ و فقہاءِ امت

🔹 اجماع صحابہ:

📘 امام ابن قدامہ حنبلی (المغنی) اور امام کاسانی حنفی (بدائع الصنائع) جیسے معروف فقہاء لکھتے ہیں:

"صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے کسی سے بھی یہ منقول نہیں کہ موت سے نکاح بالکل منقطع ہو جاتا ہے اور وہ نامحرم ہو جاتے ہیں۔”

✅ حضرت علیؓ، حضرت عائشہؓ، حضرت اسماءؓ، حضرت ابو بکرؓ جیسے جلیل القدر صحابہ کرام کے عمل سے ظاہر ہوتا ہے کہ نکاح کی حرمت موت کے بعد بھی باقی رہتی ہے۔

🔹 ائمہ اربعہ کا متفقہ موقف:

امام موقف
امام ابو حنیفہ بیوی شوہر کو غسل دے سکتی ہے۔ (الفتاوى الهندية)
امام مالک حضرت علیؓ کا عمل حجت ہے، بیوی شوہر کو غسل دے سکتی ہے۔ (المدونة)
امام شافعی دونوں ایک دوسرے کو غسل دے سکتے ہیں۔ (المجموع)
امام احمد بیوی اور شوہر موت کے بعد بھی ایک دوسرے کو غسل دے سکتے ہیں۔ (المغني)

✅ تمام ائمہ کرام کا متفقہ مؤقف یہ ہے کہ نکاح کا تقدس اور اس کے شرعی اثرات موت کے بعد بھی قائم رہتے ہیں۔

✨ عقلی دلائل

💡 اگر موت سے نکاح ختم ہو جاتا تو:
◈ بیوی عدت نہ گزارتی۔
◈ شوہر کی میراث میں بیوی کو حصہ نہ ملتا۔
◈ غسل دینا ناجائز ہوتا۔
◈ دونوں ایک دوسرے کے لیے غیر محرم ہو جاتے۔

✅ لیکن چونکہ شریعت ان تمام امور کی اجازت دیتی ہے، اس لیے یہ واضح ہوتا ہے کہ نکاح کا اثر موت کے بعد بھی برقرار رہتا ہے۔

✅ خلاصہ و نتیجہ:

◈ موت، طلاق نہیں ہے بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کا ایک مقدر کردہ فیصلہ ہے۔
◈ نکاح ایک باعزت، اعلیٰ اور مستقل اثر رکھنے والا رشتہ ہے۔
◈ نہ قرآن، نہ حدیث، نہ اجماعِ صحابہ، اور نہ ہی فقہائے امت کے ہاں ایسا کوئی ثبوت موجود ہے جو یہ ظاہر کرے کہ موت نکاح کو طلاق یا مکمل اختتام میں بدل دیتی ہے۔

💖 دینی نصیحت:

جب شریعت نے نکاح کو موت کے بعد بھی برقرار رکھنے والا تعلق قرار دیا ہے تو ہمیں چاہیے کہ ہم نکاح کو محض وقتی یا معمولی تعلق نہ سمجھیں۔ بلکہ اس کے تقدس کو سمجھیں، انصاف کے ساتھ سلوک کریں، اور شریعت کے مطابق اس کا حق ادا کریں۔

📿 دعا:

اَللّٰهُمَّ اجعلنا مِنَ الَّذِينَ يَفْقَهُونَ دِينَكَ، وَيُعَظِّمُونَ حُرُمَاتِهِ، وَيَسْلُكُونَ سَبِيلَ السَّلَفِ الصَّالِحِ. آمِين

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1