سوال:
کیا مغرب اور عشاء کے درمیان چھ رکعت نوافل کا ثبوت ہے؟
جواب:
مغرب اور عشاء کے درمیان نماز کی فضیلت کے بارے میں جو احادیث پیش کی جاتی ہیں، ساری کی ساری ضعیف اور ناقابل حجت ہیں۔ تفصیل ملاحظہ ہو:
① سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
من صلى بين المغرب والعشاء، عشرين ركعة بنى الله له بيتا فى الجنة.
”جس نے مغرب اور عشاء کے درمیان بیس رکعات ادا کیں، اللہ اس کے لیے جنت میں گھر بنائے گا۔“
(سنن ابن ماجه: 1373)
روایت من گھڑت ہے۔
یعقوب بن ولید مدنی کے بارے میں امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
كان من الكذابين الكبار وكان يضع الحديث.
”بڑا جھوٹا تھا، حدیثیں گھڑتا تھا۔“
(الجرح والتعديل لابن أبي حاتم: 216/9)
الکامل فی ضعفاء الرجال لابن عدی (149/5) میں اس کا ایک ضعیف شاہد ہے، جس کی سند میں عمرو بن جریر کوفی ہے، اس کے بارے میں امام ابو حاتم رازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
كان يكذب.
”جھوٹ بولتا تھا۔“
(الجرح والتعديل لابن أبي حاتم: 224/6)
② سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”جس نے مغرب کے بعد چھ رکعات ادا کیں اور ان کے درمیان کوئی بری بات نہ کی، وہ اس کے لیے بارہ سال عبادت کے برابر کر دی جائیں گی۔“
(سنن الترمذي: 435، سنن ابن ماجه: 1374، صحيح ابن خزيمة: 1195)
سند سخت ”ضعیف “ہے۔ عمر بن ابی شعم ضعیف اور منکر الحدیث ہے۔
③ سیدنا عمار بن یاسر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ میں نے اپنے حبیب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مغرب کے بعد چھ رکعات پڑھتے دیکھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”جس نے نماز مغرب کے بعد چھ رکعات ادا کیں، اس کے تمام گناہ معاف کر دیے جائیں گے، اگرچہ وہ سمندر کی جھاگ کے برابر ہوں۔“
(المعجم الأوسط للطبراني: 7245)
سند سخت ضعیف ہے۔ اس میں مجہول راوی ہیں۔
❀ حافظ ابن الجوزی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
فيها مجاهيل.
”اس میں کئی مجہول راوی ہیں۔“
(العلل المتناهية: 776)
④ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں:
صلاة الأوابين، ما بين أن يلتفت أهل المغرب، إلى أن يثوب إلى العشاء.
”نماز اوابین مغرب اور عشاء کے درمیان ہے۔“
(مصنف ابن أبي شيبة: 196/2)
سند ”ضعیف “ہے۔
❀ موسیٰ بن عبیدہ ربزی کے بارے میں حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
ضعيف عند الأكثرين.
”جمہور کے نزدیک ضعیف ہے۔“
(تفسير ابن كثير تحت آية سورة بني إسرائيل: 44)
⑤ نیز سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں:
من صلى أربعا بعد المغرب كان كالمعقب غزوة بعد غزوة.
”جس نے نماز مغرب کے بعد چار رکعات ادا کیں، وہ پے در پے غزوہ کرنے والے کی طرح ہے۔“
(مصنف ابن أبي شيبة: 196/2)
سند ”ضعیف “ہے۔ موسیٰ بن عبیدہ ربزی ”ضعیف “ہے۔
⑥ ابن منکدر رحمہ اللہ اور ابو حازم رحمہ اللہ ﴿تَتَجَافَى جُنُوبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ﴾ (السجدة: 16) کی تفسير میں فرماتے ہیں:
هي ما بين المغرب وصلاة العشاء، صلاة الأوابين.
”مغرب اور عشاء کے درمیان صلاۃ اوابین ہے۔“
(السنن الكبرى للبيهقي: 19/3)
سند ضعیف ہے، ابن لہیعہ ضعیف بمختلط اور مدلس ہے۔
⑦ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے قول کی سند نہیں مل سکی۔
بعض لوگ اس نماز کو ”صلاۃ الاوابین“ کے نام سے موسوم کرتے ہیں، جو کہ درست نہیں، اس باب میں دیگر ضعاف بھی منقول ہیں۔
نوٹ:
بلاتعین مغرب اور عشاء کے درمیان نوافل پڑھنا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے۔