مساجد کے دروازے بند کرنا
احکام مساجد میں سے ہی ایک تو یہ ہے کہ آیا اوقاتِ نماز کے علاوہ دیگر اوقات میں مساجد کے دروازے بند کرنا جائز ہے یا نہیں؟
اس سلسلے میں یہ بات تو واضح طور پر کتب حدیث میں موجود ہے کہ بوقتِ تعمیر کے دروازوں کی جگہ رکھنے کے ساتھ ہی وہاں کے دروازے بھی لگائے جا سکتے ہیں۔ حتیٰ کہ ان دروازوں کی کنڈیوں وغیرہ کا تذکرہ بھی ملتا ہے. اگرچہ وہ اشارہ ہے صراحتاً نہیں۔ چنانچہ صحیح بخاری کے ایک ترجمہ الباب میں حضرت ابن جریج سے منقول ہے کہ حضرت ابن ابی ملیکہ نے مجھ سے مخاطب ہو کر فرمایا:
لو رأيت مساجد ابن عباس وأبوابها
اے عبدالملک ابن جریج اگر تم حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کی بنائی ہوئی مساجد دیکھ لیتے (تو تمہیں پتہ چلتا کہ) ان کے اور ان کے دروازوں کی نظافت و نفاست کس درجہ تک پہنچی ہوئی تھی۔
بخاری 559/1
اور عام مساجد تو کجا خاص بیت اللہ شریف یا خانہ کعبہ کے دروازے کا ذکر بھی ملتا ہے۔ صحیح بخاری و مسلم اور دیگر کتب حدیث میں حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے۔ جس میں وہ بیان فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم، حضرت اسامہ بن زید، حضرت بلال اور حضرت عثمان بن طلحہ رضی اللہ عنہم بیت اللہ شریف میں داخل ہو گئے۔
فاغلقوا عليهم الباب فلما فتحوا كنت اول من ولج
انہوں نے (اندر جا کر اندر سے) دروازہ بند کر لیا۔ جب انہوں نے دروازہ کھولا تو سب سے پہلے میں اندر گیا۔
بخاري 559/1 و 463/3
اس حدیث میں آگے بھی کچھ الفاظ ہیں، لیکن ہمارا مقصود انہی الفاظ میں موجود ہے کہ خانہ کعبہ کا دروازہ تھا جسے اندر سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مرافقین صحابہ رضی اللہ عنہم نے بند کر لیا تھا۔ اس حدیث پر امام بخاری نے کتاب الصلوٰۃ میں یوں تبویب کی ہے:
باب الابواب والغلق للكعبة والمساجد
یعنی خانہ کعبہ اور عام مساجد کے لیے دروازوں اور انہیں بند کرنے والے کواڑوں کا بیان۔
اور کتاب الجمعہ میں جا کر اس حدیث پر یوں تبویب کی ہے:
باب اغلاق البيت
یعنی بیت اللہ کے دروازوں کو بند کر لینے کا بیان۔
اس طرح بیت اللہ شریف اور عام مساجد کے لیے دروازوں وغیرہ کا ثبوت تو مل جاتا ہے۔ اور کعبہ اللہ کے اندر داخل ہو کر اس کے دروازے کو اندر سے بند کر لینے کا پتہ بھی چل جاتا ہے۔ اور بات صرف یہ رہ جاتی ہے کہ آیا اوقاتِ نماز کو چھوڑ کر دوسرے اوقات میں مساجد کو تالے وغیرہ لگا کر بند کرنا روا ہے یا نہیں؟
اور اس سلسلے میں کوئی واضح و صریح دلیل تو ہماری نظر سے نہیں گزری جس سے جواز ثابت ہو بلکہ اس کے برعکس فقہاء احناف میں سے بعض نے اسے مکروہ قرار دیا ہے۔ بلکہ صمیری نے ”شرح الکفایہ“ میں کہا ہے کہ خود امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کسی بھی وقت مسجد کے دروازے بند کرنے کو ممنوع قرار دیتے تھے۔ امام نووی رحمہ اللہ نے ”روضة الطالبین “ میں ”الکفایہ“ سے ان کا یہ قول نقل کیا ہے۔ اور اسے برقرار رکھا ہے۔ بلکہ اس کی تائید کی ہے۔
بحوالہ اعلام المساجد للزرکشی ص 340
اور مساجد کو بند کرنے کے ناجائز ہونے پر احناف کا استدلال سورہ البقرہ آیت 114 سے ہے، جس میں ارشاد الٰہی ہے:
﴿وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّن مَّنَعَ مَسَاجِدَ اللَّهِ أَن يُذْكَرَ فِيهَا اسْمُهُ وَسَعَىٰ فِي خَرَابِهَا﴾
اور اس شخص سے بڑھ کر ظالم کون ہو گا جو اللہ کی مسجدوں میں اس کے نام کی یاد سے روکے اور ان کی ویرانی کے درپے ہو۔
اس آیت میں ہر اس شخص کی مذمت کی گئی ہے جو لوگوں کو مسجدوں میں ذکر الٰہی یعنی نماز اور تلاوت سے روکے۔ یہاں نہ مسجد سے مراد صرف مسجد حرام ہے اور نہ بیت المقدس کی مسجد اقصیٰ ہے۔ اور نہ ظالموں سے مراد فقط بخت نصر یا اس کے تعاون کرنے والے عیسائی ہیں۔ اور نہ ہی حدیبیہ کے موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مسجد حرام کے داخلے اور طواف بیت اللہ سے روکنے والے صرف مشرکین ہی مراد ہیں۔ بلکہ چونکہ یہ آیت عام ہے۔ لہذا ہر مسجد سے روکنے والا ہر شخص شامل ہے۔ تفصیل کے طالب سورة البقرة آیت 114 اور سورة التوبة آیت 17، 18 کی تفسیر دیکھ سکتے ہیں۔ ابن کثیر، قرطبی اور تفہیم القرآن وغیرہ میں اس کی تفصیل موجود ہے۔ سورة البقرة کی آیت 114 سے استدلال کرتے ہوئے نماز کے علاوہ اوقات میں مساجد کی تالا بندی کو ممنوع قرار دینے والی بات دل کو بھاتی ہے۔
لہذا متولیان مساجد کو چاہیے کہ وہ اس طرف توجہ مبذول فرمائیں۔ مساجد کی تالا بندی اور لوگوں کو ان میں ذکر و فکر، نماز و تلاوت جیسی عبادات سے روکنے کی بجائے ایک شخص کو نگران مقرر کر دیں جو مسجد سے متعلقہ اشیاء جیسے لاؤڈ سپیکر، قالین، کلاک، ویکیوم کلینر یا قالین صاف کرنے والی برقی مشین، پیتل کی ٹوٹیاں اور دیگر چیزوں پر نظر رکھے اور رات کے وقت بھی پہرہ داری کرے۔ جسے پہرہ دار یا مسجد کا خادم کہا جا سکتا ہے۔ وہ ہر وقت موجود رہے اور مسجد کے دروازے کھلے رکھے تاکہ وقت بے وقت آنے والوں کو اللہ کا گھر کھلا ملے اور کسی پر اللہ کے گھروں سے روکنے کی یہ وعید صادق نہ آئے۔
دوسری رائے:
لیکن اس کا کیا کیجیے کہ ہر مسجد میں خادم رکھنے یا پہرہ دار مقرر کرنے کی ہر متولی میں ہمت نہیں ہوتی۔ لہذا مساجد کا انتظام و انصرام کرنے والے اوقاف و شعون اسلامیہ کے ادارے امام یا مؤذن پر پابندی عائد کر دیتے ہیں کہ وہ نماز کے وقت مسجد کو کھولیں اور نماز کے بعد اسے بند کر دیں۔ یہ چوری چکاری کی ایک مجبوری کے تحت ہوتا ہے جو آج سے نہیں بلکہ صدیوں سے درپیش ہے کیونکہ آٹھویں صدی ہجری میں پیدا ہونے اور اسی میں فوت ہونے والے علامہ زرکشی رحمة اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ:
مسجدوں کو بند نہ کرنے پر عمل سلف صالحین کے عہد مبارک میں تو ممکن تھا لیکن اب ایسا نہیں۔ بلکہ اس سلسلے میں ایک دوسری رائے یہ ہے کہ آج کے دور میں چونکہ جرائم بہت بڑھ چکے ہیں اور تو اللہ کے گھروں سے چوری ہونے کا خدشہ بھی رہتا ہے اور مسجدوں میں گھس کر ملحقہ مکانوں یا دکانوں میں نقب زنی یا دیوار پھاڑ کر چوری کا اندیشہ بھی ہے۔ لہذا ان قباحتوں سے بچنے کے لیے مساجد کو بند کرنا جائز ہے۔
(اعلام المساجد ایضاً )
یہ تو آٹھویں صدی ہجری کے ایک فاضل کے خدشات ہیں اور اب تو یہ خدشات حقائق کا روپ دھار چکے ہیں۔ واقعی چوری چکاری کے ایسے واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں کہ کہیں ایمپلی فائر مشین، کہیں ہارن کا یونٹ اور کہیں کچھ چوری ہوتی ہے۔ لہذا ان حالات کے پیش نظر اس دوسری رائے پر عمل کرنا بھی روا ہو گا کہ نماز کے اوقات کو چھوڑ کر باقی اوقات مثلاً طلوع آفتاب سے دوپہر 12 بجے تک اور پھر نماز عشاء سے فجر تک مساجد کو بند کر دیا جائے۔ آج عرب ممالک میں بھی دوسری رائے پر عمل ہو رہا ہے۔ بلکہ ہمارے ممالک میں ممانعت کی پہلی رائے رکھنے والے لوگ بھی ان اوقات میں مساجد کو بند کر دیتے ہیں، خصوصاً شہروں کے لوگ۔
استاذ الاساتذہ شیخ الحدیث سید نذیر حسین محدث دہلوی رحمة اللہ علیہ کا فتویٰ بھی یہی ہے کہ:
بلاوجہ تالا لگانا منع ہے اور چوری کے ڈر اور ذکر اللہ میں رکاوٹ نہ آنے کی صورت میں جائز ہے۔
(فتاویٰ نذیریہ 1/256، بحوالہ فتاویٰ علمائے حدیث 2/95)
البتہ بند کرنے اور کھولنے والے آئمہ و مؤذنین کو چاہیے کہ کسی نماز کے اذان سے معقول وقت پہلے اور کافی وقت بعد تک مساجد کھلی رکھنے کا اہتمام کریں۔ یہاں عرب ممالک میں تو اوقات و امور اسلامیہ کی طرف سے باقاعدہ حکم ہے کہ ہر نماز سے کم از کم 15،10 منٹ پہلے مسجد کھولیں اور کم از کم آدھا گھنٹہ یا 20 منٹ تک نماز کے بعد بھی کھلی رہنے دیں اور پھر بند کر دیں۔ جیسا کہ بعض آئمہ و مؤذنین اور اوقاف سے متعلقہ لوگوں سے رابطہ کرنے پر ہمیں معلوم ہوا ہے۔
اب اگر کوئی صاحب اپنی ذاتی مصروفیات کی وجہ سے نمازیوں کو اتنا وقت نہ دیں تو یہ ان کی غلطی ہے اور اس کے وبال کے وہ خود ذمہ دار ہیں۔ اس رائے پر عمل کی صورت میں جن مساجد میں خادم یا دربان رکھے گئے ہوں، جیسا کہ ہمارے ملک میں عموماً ہوتا ہے۔ تو ان لوگوں کو علامہ تاج الدین سبکی رحمة اللہ علیہ کی بات پر عمل کرنا چاہیے۔ چنانچہ وہ” معید النعم“ میں لکھتے ہیں کہ:
دربان یا خادم کو مسجد کے دروازے کے قریب ہی کہیں رات بسر کرنی چاہیے تاکہ اگر کوئی نمازی تہجد وغیرہ کے لیے رات کے وقت مسجد میں آنا چاہے تو آ سکے۔ بعض لوگ عشاء کے بعد یا کسی دوسرے وقت جب ایک مرتبہ دروازہ بند کریں تو پھر کسی کے آنے پر نہیں کھولتے، ان کے لیے یہ رویہ درست نہیں ہے۔
(بحوالہ اصلاح المساجد ص 277)
علامہ سبکی رحمة اللہ علیہ کے اس بیان کی روشنی میں ان خادموں اور دربانوں کو اپنے رویے پر نظر ثانی کرنی چاہیے جو باوجود ضرورت کے مساجد و مدارس کے دروازے بند رکھتے ہیں اور صرف نماز باجماعت کے وقت ہی کھولتے ہیں۔ کوئی دوسرے وقت ضرورت سے آئے تو یہ خود بخود موجود ہونے کے باوجود اندر داخل نہیں ہونے دیتے۔
اور علامہ جمال الدین قاسمی رحمة اللہ علیہ نے ”اصلاح المساجد“ میں لکھا ہے کہ:
مساجد و مدارس کے دروازے بلا ضرورت بند رکھنا تو بالاتفاق ناجائز ہے۔ البتہ رات کے وقت چوری وغیرہ کے ڈر سے دروازے بند کر سکتے ہیں اور ایسی کسی ضرورت کے واقعی یا غیر واقعی ہونے کا لحاظ بھی کرنا ہو گا۔
اور مسجد کے خادم یا دربان کے بارے میں فرماتے ہیں کہ:
کسی ایسی واقعی ضرورت کی وجہ سے مسجد کے دروازے بند کرنے کی صورت میں اس کا فرض ہے کہ وہ دروازے کے قریب سوئے تاکہ کسی کے اٹھانے سے اٹھ سکے۔ اسے جو تنخواہ ملتی ہے وہ اسی لیے ملتی ہے کہ مسجد میں آنے والوں کو اس کی وجہ سے سہولت رہے۔ اگر وہ اس کا لحاظ نہیں رکھے گا تو ان کے بقول اس کی تنخواہ جائز نہیں ہو گی۔
(بحوالہ اصلاح المساجد ص 278)