سوال:
کیا مرنے کے بعد اولیاء اللہ کے فیض و برکات باقی رہتے ہیں؟
جواب:
مرنے کے بعد انسان دنیا سے بے خبر ہو جاتا ہے، اس کے تمام سلسلے منقطع ہو جاتے ہیں۔ یہ کہنا کہ ان کے فیض جاری رہتے ہیں، اولیاء کرام کی شان میں غلو ہے۔
❀ علامہ آلوسی رحمہ اللہ (1270ھ) فرماتے ہیں:
فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
إِنَّ الَّذِينَ تَدْعُونَ مِن دُونِ اللَّهِ لَن يَخْلُقُوا ذُبَابًا
(22-الحج:73)
اللہ کے علاوہ جنہیں تم پکارتے ہو، وہ ایک مکھی بھی پیدا نہیں کر سکتے۔
اس آیت میں ان کی مذمت کی گئی جو اولیاء کے بارے میں غلو کا شکار ہیں، جو اللہ سے غافل ہو کر مصیبت میں اولیاء سے مدد مانگتے ہیں اور ان کے نام پر نذر و نیاز دیتے ہیں۔ بعض کہتے ہیں کہ اولیاء اللہ کی طرف وسیلہ ہیں، اور نذر و نیاز اللہ کے لیے دیتے ہیں، لیکن اس کا ثواب ولی کو پہنچاتے ہیں۔ اس میں شبہ نہیں کہ ان کا پہلا دعویٰ بت پرستوں جیسا ہے، جو کہتے تھے کہ ہم بتوں کی عبادت اس لیے کرتے ہیں کہ وہ ہمیں اللہ کے قریب کر دیں۔ دوسرا دعویٰ درست ہوتا اگر وہ بزرگوں سے شفاء یا غائب کی واپسی وغیرہ نہ مانگتے (جو شرعاً ناجائز ہے)۔ ان کی حالت سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ بزرگوں سے مانگنے کے لیے نذر و نیاز دیتے ہیں۔ اگر ان سے کہا جائے کہ اللہ کے نام پر نذر و نیاز دو اور اس کا ثواب اپنے والدین کو پہنچاؤ، کیونکہ وہ اولیاء سے زیادہ ثواب کے محتاج ہیں، تو وہ ایسا نہیں کرتے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کا مقصد بزرگوں سے مانگنا ہے۔
میں نے بہت سے مشرکین کو دیکھا جو اولیاء کی قبروں کے پتھروں پر سجدہ کرتے ہیں۔ بعض مشرکین قبروں میں اولیاء کے لیے تصرف (قدرت) ثابت کرتے ہیں، جو مراتب کے اعتبار سے مختلف ہوتا ہے۔ ان کے علماء چار یا پانچ قسم کا تصرف ثابت کرتے ہیں، لیکن جب دلیل مانگی جاتی ہے تو کہتے ہیں کہ یہ کشف سے ثابت ہے۔ اللہ تعالیٰ انہیں تباہ کرے، یہ کتنے جاہل اور جھوٹے ہیں! بعض دعویٰ کرتے ہیں کہ اولیاء قبروں سے نکلتے ہیں اور مختلف شکلیں اختیار کرتے ہیں، جبکہ ان کے علماء کہتے ہیں کہ اولیاء کی روحیں مختلف شکلوں (مثلاً شیر، ہرن) میں ظاہر ہوتی ہیں۔ یہ تمام باتیں جھوٹ ہیں، کتاب و سنت اور اسلاف کے کلام میں ان کا کوئی ثبوت نہیں۔ انہوں نے سادہ لوگوں کا دین برباد کر دیا۔ یہ لوگ یہود، نصاریٰ، دیگر باطل ادیان کے پیروکاروں اور بے دین لوگوں کے سامنے مذاق بن گئے ہیں۔ ہم اللہ سے دین و دنیا کی عافیت مانگتے ہیں۔
(روح المعانی: 2/212-213)