حنفی مذہب کی کہانی بہت ہی عجیب ہے چناچہ علامہ عبدالحئی لکھنوی حنفی فرماتے ہیں:
فكم من حنفى حنفى في الفروم معتزلى عقيدة كالز محشری جا والله مؤلف الكشاف طورة ———- وكم من حنفى حنفی فرعا مرجی او زیدی اصلاً وبالجملة فالحنفية لها فروع باعتبار اختلاف العقيدة فمنهم الشيعة ومنوم المعتزلة ومنهم المرجئة (الرفع والتحميل في الجرح والتعدیل ص ۲۷۔ دوسرا نسخه ص ۳۸۵ ۲۸۳ تحقیق الي نده)
’’عقیدہ کے اعتبار سے حنفی مذہب کی کئی شاخیں اور فروع ہیں۔ بہت سارے حنفی شیعہ، معتزلہ اور مرجؐہ ہیں، در حقیقت حنفی فرقہ وہ جماعت ہے جو فروعی مسائل اور شرعی اعمال میں امام ابو حنفیہ کی تقلید کرتے ہیں اگر چہ ان کا عقید و امام صاحب کے موافق ہو یا نہ ہو ، اگر موافق ہوگاتو وہ کامل حنفی کہلائے گا مگر جو دو سرے فرقوں کے موافق عقیدہ رکھے گا وہ بھی حنفی ہی کہلائے گا لیکن اس کے عقیدے کی وضاحت کی جائے گی، اس طرز پر بہت سارے لوگ فروعی مسائل میں حنفی ہیں اور عقیدہ کے اعتبار سے معتزلی مثلا زمخشری، نجم الدین الزاہدی، عبد الجبار، ابو ہاشم اور جبائی و غیر ہم، اسی طرح کتنے ہی فروعی مسائل میں حنفی ہیں اور اصولی مسائل کے اعتبار سے مرجیہ اور زیدی شیعہ ہیں۔‘‘
اسی طرح احناف کے مر شد و ممدوح شیخ عبد القادر جیلانی نے بہتر (۷۲) گمراہ فرقوں کی تفصیل ان کے ناموں کے ساتھ لکھی ہے ، مرجئہ فرقہ کی بارہ شاخوں میں سے ایک ’’حنفیہ‘‘ کو قرار دیا ہے اور حنفیہ کے بارے میں لکھتے ہیں:
وام الحنفية فهم بعض اصحاب ابى حنيفة النعمان بن ثابت زعموان الايمان هو المعرفة والاقرار يا الله و رسوله —–
یعنی حنفیہ، ابو حنیفہ کے بعض اصحاب کا نام ہے جن کا نظریہ یہ ہے کہ ایمان اللہ اور اس کے رسولﷺ کی معرفت اور اقرار کا نام ہے۔
شیخ جیلانی فرقہ ناجیہ کے بارے میں لکھتے ہیں:
واما الفرقة الناجية فهى اهل السنة والجماعة —– وما اسمهم الا اصحاب الحديث واهل السنة
یعنی فرقہ ناجیہ اہل السنت والجماعت ہے جن کا نام اصحاب الحدیث (اصل الحدیث) اور اہل السنہ ہی ہے۔
(غنیۃ الطالبین ص ۲۱۴ – ۲۲۱، ۲۲۲ )
یعنی حنفیہ شیخ جیلانی کے نزدیک گمراہ فرقوں میں سے ہے جن کا اہل السنہ والجماعت سے کوئی بھی تعلق نہیں ہے۔
اس لئے شیخ العرب والعجم علامہ سید ابو محمد بدیع الدین شاہ الراشدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ :
’’میں یہ بات علی وجہ البصیرة کہتا ہوں کہ موجودہ تمام مذ ہبی فتنوں مثلاً عیسائی مشنری، کمیونزم تحریک، چکڑالوی، انکار حدیث، مرزائی، شیعہ وغیرہ کی بنیاد فقہ حنفی کی کتابوں میں ملتی ہے۔ پھر اگرچہ کسی نے پر سے پرندہ بنایا ہو، لیکن اس پر کا وجود فقہ حنفی میں ہوتا ہے۔‘‘(مروجہ فقہ کی حقیقت (سندھی) ص۳۰)
قارئین کرام اس کے بر عکس آج کل دیو بندیوں اور بریلویوں نے یہ کہنا شروع کر دیا ہے کہ مرزا قادیانی اہلحدیث تھا اس کی مثال ’’الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے‘‘ کی طرح ہے، مرزا اگر اہل حدیث ہوتا تو دعوی الوہیت، نبوت، مسیحیت وغیرہ کبھی نہ کرتا کیونکہ ائمہ کرام کے نزدیک اہلحدیث کی تعریف ہی یہی ہے کہ :
صاحب الحديث عندنا من يستعمل الحديث ( مناقب الامام احمد بن حنبل ص ۸۰۲)
’’یعنی ہمارے نزدیک اہلحدیث وہ ہے جو رسول اللہ ﷺ کی حدیث پر عمل پیرا ہو ‘‘ جب کہ احادیث میں تو اس قسم کے دعوؤں کو کفر و شرک کہا گیا ہے۔ تو مرزا کا اہلحدیث ہونا محال ہے۔
اصولی جواب
اہلحدیث کے عظیم سپوت مولانا پروفیسر حافظ عبداللہ بہاولپوریؒ اس کا جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ : اگر بفرض و محال یہ تسلیم کر لیا جائے کہ مرتد ہونے سے پہلے یہ لوگ اہلحدیث تھے۔ تو اس سے اہلحدیث پر کیا حرف آتا ہے؟ آپ لوگ مقلد ہیں جو ایسی بے عقلی کی باتیں کرتے ہیں اگر تقلید نے آپ کی مت نہ ماردی ہوتی تو ایسی احمقانہ باتیں کبھی نہ کرتے ، آپ بتائیں رسول اللہ ﷺ پر ایمان لانے والوں میں سے جو مرتد ہوئے ان سے آپ ﷺ یا جماعت صحابہ پر کوئی حرف آیا؟ شیطان کے راندہ در گاہ ہونے سے جماعت ملائکہ پر کوئی اثر پڑا؟ اگر اسلام سے کوئی منحرف ہو جائے تو اسلام پر کوئی دھبہ آسکتا ہے ؟ کسی کے راہ حق سے ہٹ جانے سے راہ حق خراب نہیں ہوتی بلکہ صاف ہو جاتی ہے۔ جب ایک مسلمان اقالہ بیعت کر کے مدینہ چھوڑ کر جانے لگا تو آپ ﷺ نے فرمایا تھا کہ مدینہ بھٹی ہے یہ منافق اور گندے کو برداشت نہیں کرتا۔ جس کے اندر گند ہوتا ہے وہ حق کو چھوڑ جاتا ہے اس سے حق پر طعن نہیں آتا، دیوبندی حضرات احمد رضاخان بریلوی کو کیا لکھتے ہیں ؟ ان کے نزدیک وہ امام الضالین و المضلین نہ تھے ؟اسی طرح بریلوی حضرات رشید احمد گنگوہی، اشرف علی تھانوی اور دیگر دیوبندی اکابرین کو ان سے کم ’’القابات‘‘ سے نہیں نوازتے۔ ان کا ظہور حنفیت میں ہی ہوا اور حنفیت میں ہی پروان چڑھے حنفیت کو ہی انہوں نے چار چاند لگائے۔ آپ بتائیں ان کی وجہ سے کیا حنفیت پلید ہو گئی ؟ اگر ان کے ظہور سے حقیقت کو کچھ نہیں ہوا تو مرزا یا کسی اور کے خروج سے اہلحدیث کو کیا ہو جائے گا؟ (رسائل بہاولپوری ص ۱۸۳ تصرف بیر)
ہمارے استاد فضیلۃ الشیخ حافظ محمد سلیم صاحب حفظہ اللہ (شیخ الحدیث المعہد السلفی کراچی) نے بتایا کہ مناظر اہلحدیث مولانا عبد القاد روپڑی رحمہ اللہ پر مد مقابل مناظر نے یہی اعتراض کیا کہ مرزا قادیانی اہلحدیث تھا؟ تو انہوں نے برجستہ جواب دیا کہ : ” خراب ہمیشہ دودھ ہی ہوتا ہے، پیشاب بھی خراب نہیں ہوتا‘‘
حقیقت کیا ہے؟
معزز قارئین ! حقیقت یہ ہے کہ مرزا قادیانی دعویٰ نبوت سے قبل اور بعد میں بھی حنفی رہا اور حنفیت کی تعریف سے رطب اللسان تھا، بلکہ لوگوں کو حنفیت کی تعلیم دیتا رہا۔ لیکن باری ہے سب سے پہلے اصول و عقائد کی اس لیئے ہم بات کی ابتداء کرتے ہیں عقائد سے آئندہ سطور میں ہم ثابت کریں گے کہ مرزاجی اور احناف کے عقائد میں ہم آہنگی ہے۔
(1) غیر اللہ کو پکارنا
مرزا قادیانی مشکل اور مصیبت کے وقت پڑھا کرتا تھا:
اے سید انور کی مد دے وقت نصرت است
یعنی اے رسول اللہ ! آپ کی امت پر نازک گھڑی آئی ہوئی ہے میری مدد کو تشریف لائیے کہ یہ نصرت کا وقت ہے۔ (سیرت المہدی ص ۵۵ ج۳)
یہ الفاظ بھی مذکور ہیں کہ :
صلى الله عليك يا رسول الله وسلمك الله يا رسول الله (ایضا)
حاجی امداد اللہ صاحب دیو بندی کے اشعار بھی بلکل اسی طرز کے ہیں کہ :
سخت مشکل میں پھنسا ہوں آج کل اے میرے مشکل کشا فریاد ہے
(کلیات امدایہ ص ۹۱)
اشرف علی تھانوی صاحب فرماتے ہیں:
دستگیری کیجئے میرے نبی کشمکش میں تم ہی ہو میرے نبی
بجز تمہارے ہے کہاں میری پناہ فوج کلفت مجھ پر آ غالب ہوئی
ابن عبداللہ زمانہ ہے خلاف اے میرے مولا خبر لیجئے میری
میں ہوں بس اور آپکا دریا رسول ابر غم گھیرے نہ پھر مجھ کو کبھی
(نشر الطيب ص ۱۵۶)
دیوبندیوں کے نزدیک علی رضی اللہ عنہ بھی مشکل کشا ہیں (کلیات امدایہ ص ۱۰۳ مزید دیکھئے فضائل درود ۳۷۲)
بریلوی حضرات کے نزدیک تو یہ عقیدہ مسلمہ ہے۔
(۲) قبر پرستی
’’مرزا قادیانی نے ایک بزرگ کی قبر پر دعا مانگی تو صاحب قبر اپنی قبر سے نکل کر دو زانو ہو کر ان کے سامنے بیٹھ گئے۔ مرزا نے اپنے ساتھی سے کہا کہ اگر تم نہ ہوتے تو میں ان سے باتیں بھی کر لیتا۔ ‘‘ الخ (سیرۃ المہدی ج ۷۱)
بعض لوگ قبروں پر سے کپڑے اتار کرلے جاتے تھے جب مرزا قادیانی کو معلوم ہوا تو اس نے اس کام کو نا جائز قرار دیا تب یہ لوگ باز آگئے۔ ‘‘ (سیرۃ المہدی ج ۳ ص ۲۶۴)
چہلم کے بارے میں مرزا کی ایک حکایت ہے کہ : یہ جو چہلم کی رسم ہے یعنی مردے کے مرنے سے چالیسویں دن کھانا کھلا کر تقسیم کرتے ہیں غیر مقلد اسکے بہت مخالف ہیں۔۔۔۔۔۔ اس پر مرزا نے کہا فرمایا کہ چالیسویں دن غرباء میں کھانا تقسیم کرنے میں یہ حکمت ہے کہ مردے کو اروح کے رخصت ہونے کا دن ہے پس جس طرح لڑکی کو رخصت کرتے ہوئے کچھ دیا جاتا ہے اسی طرح مردے کی روح کی رخصت پر بھی غرباء میں کھانا دیا جاتا ہے تا کہ اسے اسکا ثواب پہنچے۔ ‘‘ (سیرۃ المہدی ج اص ۱۸۳)
مزا بزرگوں کے عجیب و غریب کشف اور چلہ کشی وغیرہ کا بھی قائل تھا۔ (سیرۃ المہدی ج) ص ۸۲-۲۹۰۷۰۰۸۱ تریاق القلوب (۲۲) –
مرزا کے والد کی قبر پختہ بنائی گئی اور مسجد کے صحن میں دفن کیا گیا۔ ‘‘- (سیرۃ المہدی ج ۳ ص ۱۷۸)
قارئین کرام ! ان عقائد کا حامل شخص اہلحدیث کیسے ہو سکتا ہے؟ یہ عقائد تو حنفیت کی دونوں شاخوں بریلویوں اور دیوبندیوں کے پاس مسلمہ ہیں جن سے ان کے اکابر کی کتابیں بھری پڑی ہیں، چنانچہ حاجی امداد اللہ صاحب فرماتے ہیں کہ :
ایک صاحب کشف شخص حضرت حافظ صاحب کے مزار پر فاتحہ پڑھنے لگے۔ بعد فاتحہ کہنے لگے: بھائی! یہ کون بزرگ ہیں ؟ بڑے دل لگی باز ہیں جب میں فاتحہ پڑھنے لگا تو مجھ سے فرمانے لگے کہ جاؤ کسی مردہ پر فاتحہ پڑھو یہاں زندوں پر فاتحہ پڑھنے آئے ہو یہ کیا بات ہے۔ ‘‘ (ارواح ثلاثہ ۱۸۱ حکایت نمبر ۲۰۵)
اس قسم کے مزید واقعات کے لئے تبلیغی جماعت کے رہنما مولوی زکریا کی کتاب فضائل صدقات (ص ۵۷۲-۵۷۱-۵۶۲)- ملاحظہ فرمائیں۔
نیز دیوبندیوں کے نزدیک قبر کی مٹی سے شفا حاصل ہوتی ہے۔ (حکایات اولیاء حکایت نمبر ۳۶۶)
عقیدہ کے بارے میں علی الاطلاق مرزائیت کا یہ پیغام ہے کہ : ’’احمدیت کا سیدھا سادہ عقیدہ اس بارے میں وہی ہے جو حضرت امام ابو حنیفہ کا تھا‘‘ (پیغام احمدیت ص ۱۶)
عقیدہ کے دیگر مسائل
مرزا کے نزدیک بزرگوں کو دیکھنے سے گناہ معاف ہوتے ہیں۔ (سیرۃ المہدی ج ۲ ص ۹۸) اور دیو بندیوں کے نزدیک بھی بزرگ کم درجہ نہیں رکھتے۔ چنانچہ ملاحظہ فرمائیں:
” والله العظیم مولانا تھانوی کے پاؤں دھو کر پینا نجات اخروی کا سبب ہے (تذکرۃ الرشید ج ص ۱۱۳) اور دیو بندیوں کے نزدیک حق وہی ہے جور شید احمد گنگوہی کی زبان سے نکلتا ہے (تذکرۃ الرشید ج ۲ ص ۱۷)مرزا نے لکھا ہے کہ : ہمارے نبیﷺ کا اکثر اولیاء سے عین بیداری کی حالت میں ملاقات کرنا کتابوں میں بھرا پڑا ہے اور مؤلف رسالہ بڑا (خود مرزا) بھی کئی دفعہ اس شرف سے مشرف ہو چکا ہے۔ (ازالہ اوہام ص ۹۴)
اسی طرح دیوبندی مولوی علی میاں نے سید احمد شہید کے بارے میں لکھا ہے کہ انہوں نے بیداری کی حالت میں رسول اللہ ﷺ اور ابو بکر رضی اللہ عنہ سے ملاقات کی۔ (سیر یخ دعوت و عزیمت ج ا ص ۱۲۸ همه ششم)
مرزا قادیانی اپنے آپکو رحمۃ للعالمین کہتا ہے (تذکرۃ الشہاد تین ص۳)
اور دیو بندیوں کے نزدیک حاجی امداد اللہ رحمتہ للعالمین ہیں ( قصص الا کا بر ص ۶۹)
جبکہ اللہ رب العالمین اپنی پیاری کتاب قرآن مجید میں محمد رسول اللہ ﷺ سے مخاطب ہو کر فرماتا ہے کہ :
وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِلْعَالَمِينَ (107)(الانبیاء)
’’ہم نے آپکو رحمۃ للعالمین بنا کر مبعوث فرمایا‘‘
قارئین کرام ! مندرجہ بالا عقائد میں مرزا قادیانی نے حنفیت کی خوب تائید کر رکھی ہے۔ نجات کی بنیاد عقیدہ پر ہے ، سب انبیاء کی پہلی دعوت عقیدہ توحید کی دعوت ہے اور اہلحدیث کا مرزائیوں، حنفیوں بریلویوں اور دیو بندیوں سے اصل اختلاف عقیدے میں ہے۔
عقائد میں مرزا قادیانی نے احناف کی اتنی موافقت کر رکھی ہے کہ علماء احناف بھی اسے تسلیم کر رہے ہیں چنانچہ بریلوی حضرات کے مرشد و محبوب خواجہ غلام فرید چشتی حنفی فرماتے ہیں کہ : وہ (مرزا قادیانی) اہل سنت و جماعت کے عقائد وضروریات دین کا ہر گز منکر نہیں ہے۔ ‘‘ ( اشارات فریدی حصہ سوم ص ۲۰)
دیو بندیوں کے حکیم الامت مولوی اشرف علی تھانوی کے سامنے کسی شخص نے مرزا کے لئے سخت الفاظ استعمال کیے تو انہوں نے اسے برا محسوس کیا۔ حضرت (تھانوی) نے لہجہ بدل کر ارشاد فرمایا کہ ’’یہ زیادتی ہے، توحید میں ہمارا ان سے کوئی اختلاف نہیں ‘‘۔۔۔۔۔۔ الخ ( کچی باتیں ص ۲۱۳)
امام اعظم کون ہیں؟
اہلحدیث کے نزدیک امام اعظم محمد رسول اللہ ﷺ ہیں چنانچہ محدث دیار سندھ شیخ العرب والعجم الامام السید بدیع الدین شاہ الراشدی رحمہ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں کہ :
’’خبردار! اہلحدیث کا کوئی بھی امام نہیں ہے بلکہ صرف ایک امام یعنی امام اعظم جناب رسالت مآب محمد ﷺ ہیں۔‘‘ (مروجہ فقہ کی حقیقت (سندھی) می ۴۶)
شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے سندھ کی عظیم سمجھی جماعت، جمعیت اہلحدیث سندھ کی بنیاد رکھی تو اس کے منشور میں با قاعدہ یہ نکتہ شامل فرمایا کہ :
’’صرف محمد ﷺ کو امام اعظم تسلیم کرنا‘‘ (توحید ربانی سندھی)
دوسری طرف حنفی ، امام ابو حنیفہ کے ’’امام اعظم ‘‘ ہونے کا ڈھنڈورا پیٹتے رہتے ہیں، اس نام سے کانفرنسیں بھی منعقد کرتے ہیں۔ مرزا غلام احمد قادیانی نے اس مسئلے میں احناف کی تائید کر رکھی ہے چنانچہ اس نے (ازالہ اوہام ص ۱۹۸)میں امام ابو حنیفہ کو امام اعظم لکھا ہے اور امام صاحب کے احادیث کی طرف کم التفات کرنے کی عجیب و غریب تاویلیں کی ہیں اور ان کی تعریف میں رطب اللسان ہے، مرزا بشیر لکھتا ہے کہ : حضرت مسیح موعود (مرزا) یوں تو سارے ناموں کو عزت کی نظر سے دیکھتے تھے مگر امام ابو حنیفہ صاحب کو خصوصیت کے ساتھ علم و معرفت میں بڑھا ہوا کھتے تھے اور ان کی قوت استدلال کی بہت تعریف فرماتے تھے۔ (سیرت المہدی ص ۴۹ ج ۲) بلکہ اجتہاد، علم اور درایت اور فہم و فراست میں باقی ائمہ ثلاثہ سے افضل واعلیٰ تھے۔ (ازالہ اوہام ص ۱۹۸)
اہلحدیث بھی اماام ابو حنیفہ کی عزت کرتے ہیں مگر تعریف میں اتنا غلو ایک حنفی ہی کر سکتا ہے !
عقیدہ ختم نبوت
عقیدہ ختم نبوت قرآن و حدیث کے دلائل سے ثابت ہے اور محمد رسول اللہ ﷺ خاتم النبیین ہیں لیکن حنفی مولویوں کی کتابوں میں ایسی عبارتیں موجود ہیں جن سے اس عظیم الشان عقیدے پر حرف آتا ہے چنانچہ’’حضرت غوث علی شاہ قلندری قادری‘‘ کی ملفوظات مولوی گل حسن شاہ قادری نے ’’تذکرہ غوثیہ‘‘ کے نام سے مرتب کی ہے جس کے صفحہ ۳۲۴ میں ہے کہ : حضرت ابو بکر شبلی کی خدمت میں دو شخص بارادہ بیعت حاضر ہوئے ان میں سے ایک کو فرمایا کہ کہو : لا اله الا اللہ شبلی رسول اللہ اس نے کہا اچی لاحول ولا قوۃ الا باللہ آپ نے بھی یہی کلمہ پڑھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دوسرے شخص کو بلایا اور فرمایا کہو لا الہ الا اللہ شبلی رسول اللہ اس نے جواب دیا کہ حضرت میں تو آپ کو کچھ اور ہی سمجھ کے آیا تھا آپ تو درے ہی پر گر پڑے رسالت پر ہی قناعت کی (یعنی میں آپ کو رسالت سے بڑھ کر سمجھ کر آیا تھا)
مولوی اشرف علی دیو بندی کے ایک مرید نے خواب دیکھا کہ وہ خواب میں کہہ رہا ہے لا الہ الا اللہ اشرف على رسول اللہ اور پھر اٹھ کر بھی اس کے منہ سے درود پڑھتے ہوئے محمد ﷺ کی بجائے مولانا اشرف علی نکلتا ہے۔ (رساله امداد ص ۳۵ حوالہ دیوبیت ص ۱۹۰)
جب مرید نے خواب بیان کیا تو مولوی اشرف علی نے بجائے اسے ڈانٹنے اور ایمان کی تجدید کروانے کے اسے ان الفاظ سے حوصلہ دیا کہ’’ اس واقعے میں تسلی تھی کہ جسکی طرف تم رجوع کرتے ہو وہ بعونہ تعالی متبع سنت ہے‘‘۔
مولوی رشید احمد گنگوہی نے کہا: اور یہ قسم (سے) کہتا ہوں کہ جو کچھ نہیں ہوں مگر اس زمانے میں ہدایت و نجات موقوف ہے میرے اتباع پر (تذکرۃ الرشید ج ۲ ص ۱۷)
ایک بریلوی مولوی محمد اصغر علوی اپنے اعلیٰ حضرت احمد رضا کے بارے میں لکھتا ہے کہ : غیر شری لفظ زبان مبارک پر نہ آیا اور اللہ تعالی نے ہر لغزش سے آپکو محفوظ رکھا۔ (مقدمہ فتاوی رضویہ ج ۲ ص ۶)
اندازہ لگائیے کہ معصوم عن الخطا ہو نا تو انبیاء کرام کی شان ہے ! احمد رضا کے سونے کے انداز کے بارے میں لکھتے ہیں کہ :
اپنی کروٹ اس طرح لیتے تھے کہ دونوں ہاتھ سر کے نیچے رکھتے اور پاؤں سمیٹ کر سوتے اس طرح سر ’’میم‘‘ کہنیاں ’’ح‘‘ کمر ’’میم‘‘ اور پاؤں ’’دال‘‘ گویا نام محمد (ﷺ) کا نقشہ بن جاتا اسطرح سونے سے فائدہ یہ ہے کہ ستر ہزار فرشتے رات بھر نام مبارک کے گرد درود شریف پڑھتے ہیں (فتاوی رضویہ ج ۲ ص ۱۶)
بلکہ ص ا پر یہ بھی لکھا ہے کہ : انی لاجد نور الله فی هذا الجبين ( بیشک اللہ کا نور اس (احمد رضا کی) پیشانی میں پاتا ہوں)۔ قارئین کرام! خاتم النبیین کے معنی میں بھی ان لوگوں نے تحریف کر رکھی ہے چنانچہ ملاعلی قاری حنفی لکھتے ہیں:
اذا المعنى لاياتی نبي بعده ينسخ ملته (موضوعات کبیر ص ۱۰۰)
یعنی خاتم النبیین کا معنی یہ ہے کہ آپ ﷺ کے بعد کوئی ایسا نبی نہ آئے گا کہ جو آپ ﷺ کے دین کو منسوخ کر دے۔
اس کا معنی تو یہ ہے کہ شریعت کو منسوخ کرنے والا نبی نہیں آسکتا لیکن شریعت محمدی کو منسوخ نہ کرنے والا نبی آسکتا ہے۔ مرزا کے بارے میں کیا خیال ہے اس نے بھی ظلی، بروزی اور شارح نبی ہونے کا دعوی کیا تھا؟
مولوی قاسم نانوتوی فرماتے ہیں اگر بالفرض آپ کے زمانے میں بھی کہیں اور نبی ہو تو جب بھی آپکا خاتم ہونا بد ستور باقی ہے۔ (تحذیر الناس ۱۸)
دیوبندیوں کے نزدیک سات زمینیں ہیں ہر زمین میں ہمارے نبی جیسا نبی ہے۔ (تحذیر الناس ص ۴)
قاری طیب دیوبندی لکھتے ہیں کہ : حضور کی شان محض نبوت ہی نہیں نکلتی بلکہ نبوت بخشی بھی نکلتی ہے جو بھی نبوت کی استعداد پایا ہو ا فرد آپ کے سامنے آگیا نبی ہو گیا (آفتاب نبوت ص ۸۴)
خاتم النبیین کا بعینہ یہی معنی مرزا قادیانی نے کیا ہے لکھتا ہے:
آنحضرت ﷺ کو صاحب خاتم بنایا گیا یعنی آپکو افاضہ کمال کے لیئے مہر دی جو کسی اور نبی کو ہر گز نہیں دی گئی اسی وجہ سے آپ کا نام خاتم النبیین ٹھرا یعنی آپکی پیروی کمالات نبوت بخشتی ہے اور آپ کی توجہ روحانی نبی تراش ہے (حقیقۃ الوحی ص ۹۷ روحانی خزائن ص ۱۰۰ ج ۲۲)
تقلید اور مرزا قادیانی
جس طرح احناف تقلید کے دلدادہ ہیں مرزا قادیانی بھی اسی طرح تقلید کو ضروری تصور کرتا ہے چنانچہ لکھا ہے:
ہمارا مذہب وہابیوں کے بر خلاف ہے ہمارے نزدیک تقلید کو چھوڑنا ایک قباحت ہے کیونکہ ہر ایک شخص مجتہد نہیں ہے۔
آج کل جو لوگ بگڑے ہوئے ہیں اسکی وجہ صرف یہی ہے کہ اماموں کی متابعت چھوڑ دی گئی۔ (روحانی خزائن ج ۲ ص ۳۳۳۳۳۲)
یعنی مرزا کے نزدیک وہابی وہ ہیں جو تقلید کو چھوڑ دیتے ہیں اس لیئے ان وہابیوں سے اعلان برات کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ : مجھے یہ خواہش کبھی نہیں ہوئی کہ مجھے وہابی کہا جائے اور میر انام کسی کتاب میں وہابی نہ نکلے گا۔ (روحانی خزاس ۲ ج ۳ ص ۴۰۳)
ایک مولوی مرزا کے پاس آیا اور الگ ملاقات کی خواہش ظاہر کی جب وہ آپ سے ملاتو باتوں باتوں میں اس نے کئی دفعہ یہ کہا کہ میں حنفی ہوں اور تقلید کو اچھا سمجھتا ہوں وغیر ذالک آپ نے اس سے فرمایا کہ ہم کوئی حنفیوں کے خلاف تو نہیں ہیں کہ آپ بار بار اپنے خنفی ہونے اظہار کرتے ہیں میں تو ان چار اماموں کو مسلمانوں کے لیے بطور چار دیواری کے سمجھتا ہوں جسکی وجہ سے وہ منتشر اور پراگندہ ہونے سے بچ گئے ہیں ہر شخص اس بات کی اہمیت نہیں رکھتا کہ دینی امور میں اجتہاد کرے اگر یہ ائمہ نہ ہوتے تو ہر اہل و نا اہل آزادانہ طور پر اپنا طریق اختیار کرتا اور امت محمدیہ میں ایک اختلاف کی عظیم صورت قائم ہو جاتی، ان ائمہ نے مسلمانوں کو پراگندہ ہو جانے سے محفوظ رکھا ہم ان کی قدر کرتے ہیں ان کی بزرگی اور احسان کے معترف ہیں یہ امام مسلمانوں کے لیے بطور چار دیواری کے رہے ہیں۔ (سیر المہدی ج ۲ ص ۴۹)
قارئین کرام ! مرزا نے تقلید کی تعلیم کتنے ہی ’’خوبصورت ‘‘ انداز میں پیش کی ہے کیا یہ انداز کسی اہل حدیث کا ہو سکتا ہے؟
یعنی مرزا کے نزدیک ان ائمہ کی تقلید کو چھوڑنا انتشار، پراگندگی، آزادی اور اختلاف کا باعث ہے ! اب ان چاروں مذاہب میں سے جو مذہب مرزا نے اپنے اور اپنے ساتھیوں کے لیئے پسند کیا وہ حنفی مذہب ہے۔
مرزا قادیانی حنفی مناظر کی حیثیت سے
مولانا محمد حسین بٹالوی کے مقابلے میں حنفیوں نے مرزا قادیانی کو مناظر مقرر کیا اس نے حنفی اور وہابي مسائل پر شیخ محمد حسین بٹالوی سے مناظرہ کیا اور رسوا ہوا۔ (سیرۃ المہدی ج ۲ ص ۹۱)
مرزا کی حنفیت سے محبت
یہ بات دیکھے گذر چکی ہے کہ مرزا الفظ وہابی و غیر مقلد اہلحدیث کے لیے استعمال کرتا تھا چنانچہ لکھا ہے کہ نواب ناصر وہابی مذہب کے تھے اور مرزا صاحب اہل سنت والجماعت تھے ان کے درمیان اپنے اپنے مذاہب پر بحث مباحثہ بھی ہوتا رہتا تھا۔ (سیر المہدی ج ۳ ص ۱۷۸)
مرزا کا بیٹا مرزا بشیر لکھتا ہے کہ : اصولا آپ ہمیشہ اپنے آپکو حنفی ظاہر فرماتے تھے آپ نے اپنے لیئے کسی زمانہ میں بھی اہل حدیث کا نام پسند نہیں فرمایا (سیرۃ المہدی ج ۲ ص ۴۹)
مرزا خود لکھتا ہے کہ : ہمارے ہاں جو آتا ہے اسے پہلے حنفیت کا رنگ چڑہانا پڑتا ہے میرے خیال میں یہ چاروں مذاہب اللہ تعالی کا فضل ہیں اور اسلام کے واسطے ایک چار دیواری (ملفوظات مرزا غلام احمد ج ۲ ص ۳۳)
مولوی محمد علی لاہوری نے لکھا: حضرت مرزا صاحب ابتداء سے لیکر آخر زندگی تک علی الاعلان حنفی المذہب رہے ( تحریک احمدیت ص ۱۱)
مرزا حنفیت کا داعی و مبلغ
نہ صرف یہ کہ مرزا خود حنفی تھا بلکہ حنفیت کا داعی اور مبلغ بھی تھا۔
چنانچہ مرزا بشیر لکھتا ہے کہ : مرزا نے مولوی نور الدین صاحب کو یہ لکھا کہ آپ یہ فرمادیں کہ میں حنفی المذہب ہوں حالانکہ آپ جانتے تھے کہ حضرت مولوی صاحب عقید تا اہلحدیث تھے حضرت مولوی صاحب نے اس کے جواب میں حضرت (مرزا) صاحب کی خدمت میں ایک کار ڈار سال کیا جس کی کے جواب میں حضر میں لکھا:
یہ سے سجادہ رنگیں کن گرت پیر مغان گوید
کہ سالک بے خبر نبود زاده و رسم منزلها
اور اس کے نیچے نور الدین حنفی کے الفاظ لکھ دیئے۔۔۔۔ خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مولوی صاحب نے جو شعر لکھا تھا کہ اگرچہ میں اپنی رائے میں تو اہل حدیث ہوں لیکن چونکہ میرا پیر طریقت (مرزا) کہتا ہے کہ اپنے آپ کو حنفی کہو ا سلیئے میں اس کی رائے پر اپنی رائے کو قربان کرتا ہوا اپنے آپکو حنفی کہتا ہوں (سیرت الہدی ج ۲ ص ۴۸) مرزا نے مولوی نور الدین پر حنفیت کا ایسا رنگ چڑھایا کہ اس نے لکھا کہ : کتاب و سنت پر ہمارا عمل ہے اگر بتصریح وہاں مسئلہ نہ ملے تو فقہ حنفیہ پر اس ملک میں عمل کر لیتے ہیں (مر56 الیقین فی حیاة نور الدین ص ۳۲)
اوپر مذکور واقعہ میں نور الدین کے الفاظ کہ : میرا پیر طریقت کہتا ہے کہ اپنے آپکو حنفی کہو اس لیئے میں اپنی رائے کو اسکی رائے پر قربان کرتا ہوں” اسکی مقلدانہ ذہنیت کی عکاسی کرتے ہیں نیز مرزا کے دامن تزویر میں پھنسنے سے پہلے ہی نور الدین کے اصول وہی تھے جو احناف کے ہیں (سیرۃ المہدی ج ۲ ص ۴۸)
مرزا کا اہلحدیث سے بغض
اوپر یہ حوالہ گذر چکا ہے کہ مرزا کو لقب اہل حدیث سے نفرت تھی، اس نے کسی زمانہ میں بھی اہلحدیث کا نام پسند نہیں کیا۔ مرزا کے اصول و قواعد اہل حدیث سے الگ تھلگ ہیں چنانچہ وہ خود لکھتا ہے کہ : ہم اہلحدیث کی اصطلاحات سے الگ ہو کر بات کرتے ہیں یعنی ہم حدیث اور سنت کو ایک چیز قرار نہیں دیتے جبکہ یہ رسمی محدثین کا طریقہ ہے۔ (صحیح موعود حکم کاریو ۲)
مولانا محمد حسین بٹالوی رحمہ اللہ نے اہلحدیث کے دس امتیازی مسائل رفع الیدین آمین وغیرہ کے ثبوت کے بارے میں ایک اشتہار شائع کیا، اس اشتہار کے بارے میں مرزا نے کہا کہ دیکھو یہ کیسا فضول اشتہار ہے جب نماز ہر طرح ہو جاتی ہے تو ان باتوں کا تنازعہ موجب فساد ہے۔ (سیرۃ المہدی ج ۳ ص ۴۳-۴۵)
رسول اللہ ﷺ کی سنت کے دفاع میں شأع کردہ اشتہار کو فضول اور موجب فساد قرار دینا اہل تقلید کا طریقہ کار ہے اور مرزا کی نبی کریم ﷺ کی پیاری سنتوں سے دشمنی اور اہل حدیث سے بغض و نفرت کی واضح دلیل ہے۔
مرزا قادیانی نے جہاد کی حرمت کا فتویٰ دیا تھا اور اہل حدیث اس قول کے سخت مخالف تھے اس واقعے کو تفصیل سے ذکر کرتے ہوئے مرزا لکھتا ہے کہ :
اور پنجاب کے شر انگیز بعض آدمی جو اپنے تئیں موحد یا اہلحدیث کے نام سے موسوم کرتے تھے امیر کے پاس پہنچ گئے تھے۔۔۔۔۔ (تذکرۃ الشہاد تین ص ۵۱)
مندرجہ بالہ عبارت میں مرزا نے اہل حدیث کو شر انگیز قرار دیا ہے اس سے واضح ہے کہ مرزا کو اہلحدیث سے سخت نفرت تھی۔ ایک مخص فتح خان کے بارے میں لکھا ہے کہ : فتح خان رسول پور متصل ٹانڈہ ضلع ہوشیار پور کا رہنے والا تھا اور حضور ( مرزا) کا بڑا معتقد تھا مگر بعد میں مولوی محمد حسین بٹالوی کے اثر کے نیچے مرتد ہو گیا۔ (سیرۃ المہدی ج اص ۶۹)
اس عبارت سے واضح ہے کہ علماء اہلحدیث کا یہ کام تھا کہ عام مسلمانوں اور خصوصا مرزا کے معتقدین کو اس کے چنگل سے چھڑا کر مسلمان اہلحدیث بناتے تھے جنہیں مرزا مرتد قرار دے رہا ہے یعنی علماء اہلحدیث سے تعلق اور ان کے زیر اثر آنا اور اہلحدیث ہو نا مرزا کے نزدیک ’’ مرتد ‘‘ ہونا ہے۔ اس لیئے مولانامحمد حسین بٹالوی کو اول المکفرین اور مولانا شاہ اللہ امر تسری کو اشد المعاندین قرار دیا ہے۔۔ (سیرۃ المہدی ج ا ص ۴۸ – ۱۰۷)
مرزا کہتا ہے : محمد حسین بٹالوی نے مجھے سب سے پہلے کافر قرار دیا، سب سے پہلے استفتاء کا کاغذ ہاتھ میں لے کر ہر ایک طرف یہی بٹالوی صاحب دوڑے چنانچہ سب سے پہلے کافر و مرتد ٹھرانے میں جہاں نذیر حسین دہلوی نے قلم اٹھائی اور بٹالوی صاحب کے استفتاء کو اپنی کفر کی شہادت سے مزین کیا اور میاں نذیر حسین نے جو اس عاجز کو بلا توقف و تامل کافر ٹھرایا۔ ۔(انجام آتھم: ۲۱۲، آئینہ کمالات اسلام ص ۳۱)
اہلحدیث کے امتیازی مسائل اور مرزا قادیانی
پچھلی سطور میں یہ بات باحوالہ گذر چکی ہے مرزا نے اہلحدیث کے دس امتیازی مسائل کے اشتھار و فضول و موجب فساد قرار دیا، مرزا کا بیٹا لکھتا ہے کہ :
ایک بچے احمدی کی نماز وہ نہیں جیسی ایک عام (حنفی) مسلمان پڑھتا ہے ؟ شکل وہی ہے (پیغام احمدیت ص ۴۱)
مرزا اہلحدیث کی نماز پر حنفیوں کی طرح مذاق کیا کرتا تھا اور سنت کے مطابق نماز پڑھنے والے کو ٹو کتا تھا۔ چنانچہ عبد اللہ سنوری مرتد ہونے سے قبل آمین با لجھر ، رفع الیدین وغیر ہ کیا کرتا تھاوہ بیان کرتا ہے کہ : ایک دفعہ جب میں نے آپ کے پیچھے نماز پڑھی تو نماز کے بعد آپ نے مجھ سے مسکرا کر فرمایا: میاں عبد اللہ ! اب تو اس سنت پر بہت عمل ہو چکا ہے! اور اشارہ رفع الیدین کی طرف تھا۔ میاں عبد اللہ صاحب کہتے ہیں کہ اس دن سے میں نے رفع الیدین کرنا ترک کر دیا بلکہ آمین بالجھر کہنا بھی چھوڑ دیا اور میاں عبد اللہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت (مرزا) صاحب کو کبھی رفع الیدین کرتے یا آمین بالجھر کہتے نہیں سنا اور نہ کبھی بسم اللہ بالجھر پڑھتے سنا ہے۔ (سیرۃ المہدی ج ا ص ۱۶۲)
شب برات وغیرہ کے موقع پر کھیل و تفریح کے لیئے گھر میں آتش بازی کے انار وغیرہ منگا کر چلالیا کرتے تھے ، آپ کے سامنے آتش بازی ہوتی دیکھتے رہتے مگر منع نہیں کرتے تھے بعض دفعہ اس کے لیئے پیسے بھی دیتے تھے۔ رسوم کو کلی طور پر اہلحدیث کی طرح رد نہیں کر دیتے تھے۔۔۔۔ ان میں کوئی نہ کوئی توجیہ فوائد کی نکال لیتے تھے۔(سیر المہدی ج ا ص ۵۶،۵۵ ج ۳ ۲۳۱)
مرزا قادیانی نماز کی نیت باندھتے وقت اپنے ہاتھوں کے انگوٹھوں کو کانوں تک پہنچاتے تھے یعنی یہ دونوں آپس میں چھو جاتے تھے۔ (سیر المہدی ج ۳ ص ۲۳۱)
ایک شخص میاں حبیب اللہ نے مرزا قادیانی کے ساتھ نماز پڑھی اور اپنا پاؤں اس کے ساتھ ملانا چاہا تو مرزا نے اپنا پاؤں اپنی طرف سر کا لیا جس پر میاں حبیب اللہ بہت شرمندہ ہوا۔ (سیرۃ المہدی ج ۲ ص ۲۹)
اہلحدیث کے نماز میں پاؤں سے پاؤں ٹخنے سے ٹخنہ ، کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے ہونے پر مرزا کا بیٹا اس طرح تبصرہ کرتا ہے کہ : مگر اس پر اہل حدیث نے اتنا زور دیا اور اس قدر مبالغہ سے کام لیا ہے کہ یہ مسئلہ ایک مضحکہ خیز بات بن گئی اب گویا ایک اہلحدیث کی نماز ہو نہیں سکتی جب تک وہ اپنے ساتھ والے نمازی سے کندھے سے کندھا اور ٹخنے سے ٹخنہ اور پاؤں سے پاؤں رگڑاتے ہوئے نماز ادا نہ کرے حالانکہ اس قدر قرب بجائے مفید ہونے کے نماز میں خوامخواہ پریشانی کا موجب ہوتا ہے۔ (سیر والمہدی ج ۲ ص۳۰)
قارئین کرام ! نوٹ فرما ئیں کہ سنتوں پر سختی سے عمل کرنے کو مضحکہ خیز اور باعث پریشانی قرار دینا تقلیدی ذہنیت نہیں تو اور کیا ہے؟
مرزا اپنے بیعت کرنے والوں کو کہتا تھا کہ : نماز میں اپنی زبان میں دعا کیا کریں (سیرۃ المہدی ج ۳ ا ا ۱۳ ص ۱۴)
یہی مسئلہ فقہ حنفی کی کتاب ہدایہ اولین ص ۱۵۱ آمین ہے کہ :
فان افتتاح الصلاة بالفاسية او قرأ فيها بالفارسية او ذبح وسمى بالفارسية وهو يحسن العربية اجزاء عند ابي حنيفة
یعنی جو شخص عربی زبان اچھی طرح سے جانتا بھی ہو پھر بھی نماز فارسی میں پڑھے تو امام ابو حنیفہ کے نزدیک نماز جائز ہو گی۔ تمام اہل حدیث کا نظریہ یہ ہے کہ جو شخص نماز میں سورۃ فاتحہ نہیں پڑھتا اسکی نماز نہیں ہوتی اس کے بر خلاف مرزا کہتا ہے کہ : میں یہ نہیں کہتا کہ جو شخص سورۃ فاتحہ نہیں پڑھتا اسکی نماز نہیں ہوتی کیونکہ بہت سے بزرگ اور اولیاء اللہ ایسے گذرے ہیں جو سورہ فاتحہ کی تلاوت ضروری نہیں سمجھتے تھے اور میں ان کی نمازوں کو ضائع شدہ نہیں سمجھ سکتا۔ اگر ان کی نماز نہ ہوئی تو وہ اولیاء کیسے ہو گئے چونکہ ہمیں امام اعظم سے ایک طرح کی مناسبت ہے اور ہمیں امام اعظم کا بہت ادب ہے ہم یہ فتویٰ نہیں دے سکتے کہ نماز نہیں ہوتی۔ آپ (مرزا) غالی اہل حدیث کی طرح یہ نہیں فرماتے تھے کہ جو شخص سورہ فاتحہ نہیں پڑھتا اسکی نماز نہیں ہوتی۔ (تذکرة المسبدی حصہ اول ص ۳۵۳ سيرة المهدی ج ۲ ص ۴۹ ۵۰)
مرزا اپنی داڑھی کے زیادہ بڑھے ہوئے بالوں کو قینچی سے کترواد یا کرتا تھا۔۔۔۔۔۔ اسکا یہ منشاء نہیں کہ داڑھی کی کوئی خاص مقدار شریعت نے مقرر کر دی ہے۔ اس قسم کی جزئی باتوں میں شریعت دخل نہیں دیتی بلکہ شخصی مناسبت اور پسندیدگی پر چھوڑ دیتی ہے۔ منشاء صرف یہ ہے کہ داڑھی منڈوائی نہ جاوے بلکہ رکھی جاوے لیکن داڑھی کا بہت زیادہ لمبا کرنا بھی پسند نہیں کیا گیا چنانچہ مرزا کہتا تھا کہ ایک مشت و دو انگشت کے اندازہ سے زیادہ بڑھی ہوئی داڑھی کتروا دینی مناسب ہے۔ جسکی وجہ غالبا یہ ہے کہ بہت لمبی داڑھی خلاف زینت ہوتی ہے۔ (سیر المہدی ج ۲ ص ۵۴)
داڑھی کے بارے میں مندرجہ بالا نظریہ مقلدین احناف کا ہے۔
مرزا کا مصافحہ کرنے کا طریقہ ایسا تھا جو عام طور پر رائج ہے۔ اہلحدیث والا مصافحہ نہیں کرتا تھا۔ (سیرت المہدی ج ۳ ص ۲۰۶)
مرزا قادیانی مس ذکر سے وضوء کے ٹوٹنے کا قائل نہ تھا۔ (سیرت المہدی ج ۲ ص ۳۶)
آخر میں ہم صرف اتنا ہی عرض کر دیتے ہیں کہ :
کون کہتا ہے حنفیت و مرزائیت میں جدائی ہوگی
یہ ہوائی کسی دشمن نے اڑائی ہوگی!