کیا مردے سنتے ہیں؟ قران و حدیث کی روشنی میں
ماخوذ: فتاوی امن پوری از شیخ غلام مصطفی ظہیر امن پوری

سوال:

کیا مردے سنتے ہیں؟

جواب:

إِنَّمَا يَسْتَجِيبُ الَّذِينَ يَسْمَعُونَ ۘ وَالْمَوْتَىٰ يَبْعَثُهُمُ اللَّهُ ثُمَّ إِلَيْهِ يُرْجَعُونَ ‎﴿٣٦﴾‏
(6-الأنعام:36)
جواب تو وہی دیتے ہیں جو سنتے ہیں اور مردوں کو تو اللہ تعالیٰ (قیامت کے روز) زندہ کرے گا، پھر وہ اسی کی طرف لوٹائے جائیں گے۔
إِنَّكَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتَىٰ وَلَا تُسْمِعُ الصُّمَّ الدُّعَاءَ إِذَا وَلَّوْا مُدْبِرِينَ ‎﴿٨٠﴾‏
(27-النمل:80)
(اے نبی!) یقیناً آپ نہ کسی مردے کو سنا سکتے ہیں، نہ بہروں کو اپنی پکار سنا سکتے ہیں، جب وہ اعراض کرتے ہوئے چلے جاتے ہیں۔
وَمَا يَسْتَوِي الْأَحْيَاءُ وَلَا الْأَمْوَاتُ ۚ إِنَّ اللَّهَ يُسْمِعُ مَن يَشَاءُ ۖ وَمَا أَنتَ بِمُسْمِعٍ مَّن فِي الْقُبُورِ
(35-فاطر:22)
نہ زندے برابر ہیں نہ مردے، اللہ جسے چاہے سنوا دیتا ہے اور آپ قبروں والوں کو سنا نہیں سکتے۔
مردے سنتے ہیں یا نہیں، اس بارے میں مسلمانوں کے ہاں متضاد آرا پائی جاتی ہیں۔ یہی اختلاف عقیدے کے لحاظ سے مسلمانوں کی تقسیم کا ایک بڑا سبب بھی ہے۔ یہ مسئلہ "سماع موتی” کے نام سے معروف ہے۔ بطور تمہید یہ بات ذہن نشین رکھیں کہ شریعت اسلامیہ کے کچھ کلی قواعد و قوانین میں چند ایک استثناءات رکھ دیے گئے ہیں۔ ان استثناءات کی وجہ سے ان کلی قوانین کی حیثیت پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ نصوص شرعیہ سے ثابت شدہ استثناءات کو خارج کرنے کے بعد باقی قاعدہ پھر کلی ہی رہتا ہے، مثلاً: تمام انسانوں کا ایک ماں اور ایک باپ سے پیدا ہونا ایک کلی قاعدہ ہے۔
يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاكُم مِّن ذَكَرٍ وَأُنثَىٰ
(49-الحجرات:13)
اے لوگو! بلاشبہ ہم نے تمہیں ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا ہے۔
جبکہ آدم علیہ السلام ماں اور باپ دونوں کے بغیر اور عیسیٰ علیہ السلام بن باپ کے پیدا ہوئے۔ اب کوئی ان دو خاص واقعات کی بنا پر مطلق طور پر یہ نہیں کہہ سکتا کہ انسان ماں اور باپ دونوں یا کسی ایک کے بغیر پیدا ہو جاتا ہے، البتہ یہ کہ سکتا ہے کہ خاص دو انسان دنیا میں ایسے ہوئے ہیں جن میں سے ایک ماں اور باپ دونوں کے بغیر اور دوسرا باپ کے بغیر پیدا ہوا۔
اسی طرح مردار کا حرام ہونا ایک قاعدہ کلیہ ہے۔
حُرِّمَتْ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةُ
(5-المائدة:3)
تم پر مردار کو حرام کر دیا گیا ہے۔
جبکہ اس سے جراد (ٹڈی) اور حوت (مچھلی) کا گوشت مستثنیٰ ہے۔
(السنن الكبرى للبيهقي: 1/384، وسنده صحيح)
ان دو قسم کے مرداروں کے حلال ہونے سے ہر مردار کے حلال ہونے کا استدلال جائز نہیں۔ زیادہ سے زیادہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ مردار حلال ہے لیکن صرف مچھلی اور ٹڈی کا۔ مردار کے حرام ہونے والا قانون اپنی جگہ مستقل اور کلی ہی ہے۔
❀ سنی مفسر، امام ابن جریر طبری رحمہ اللہ (310ھ) فرماتے ہیں:
والموتى يبعثھم الله
مردوں کو اللہ تعالیٰ (روز قیامت) زندہ کرے گا۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ کفار کو اللہ تعالیٰ مردوں کے ساتھ ہی زندہ کرے گا، یوں اللہ تعالیٰ نے انہیں (زندہ ہوتے ہوئے بھی) ان مردوں میں شامل کر دیا جو نہ کسی آواز کو سن سکتے ہیں، نہ کسی پکار کو سمجھ پاتے ہیں اور نہ کسی بات کا انہیں شعور ہوتا ہے۔
(تفسير الطبري: 4/855)
❀ جناب رشید احمد گنگوہی دیوبندی رحمہ اللہ (1323ھ) لکھتے ہیں:
جو لوگ مردوں کے سننے کے انکاری ہیں، ان میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا، سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ اور امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ شامل ہیں۔ ان کا استدلال اس فرمان باری تعالیٰ سے ہے:
انك لا تسمع الموتى
(اے نبی!) یقیناً آپ مردوں کو نہیں سنا سکتے۔
وہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے کفار کو نہ سن سکنے میں مردوں سے تشبیہ دی ہے۔ اس سے معلوم ہو جاتا ہے کہ مردے نہیں سنتے، ورنہ تشبیہ ہی درست نہیں رہتی۔
(الكوكب الدري، ص 319)
❀ علامہ ماتریدی رحمہ اللہ (792ھ) لکھتے ہیں:
وما انت بمسمع من في القبور
آپ قبروں والوں کو سنا نہیں سکتے۔
اللہ تعالیٰ نے کافروں کی حالت کو مردوں کی حالت سے تشبیہ دی ہے اور اس بات میں کوئی اختلاف نہیں کہ مردے سن نہیں سکتے۔
(شرح المقاصد في علم الكلام: 5/116)
❀ علامہ ابن ہمام حنفی رحمہ اللہ (861ھ) دونوں آیات کے متعلق فرماتے ہیں:
ان دونوں آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ مردے قطعاً نہیں سن سکتے۔ اللہ تعالیٰ نے کفار کو مردوں سے تشبیہ دی ہے تا کہ یہ بتایا جا سکے کہ وہ سن نہیں سکتے۔ کفار کا حق کو نہ سن سکنا، عدم سماع موتی کی فرع ہے۔
(فتح القدير: 2/104)
يُولِجُ اللَّيْلَ فِي النَّهَارِ وَيُولِجُ النَّهَارَ فِي اللَّيْلِ وَسَخَّرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ كُلٌّ يَجْرِي لِأَجَلٍ مُّسَمًّى ۚ ذَٰلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمْ لَهُ الْمُلْكُ ۚ وَالَّذِينَ تَدْعُونَ مِن دُونِهِ مَا يَمْلِكُونَ مِن قِطْمِيرٍ ‎﴿١٣﴾‏ إِن تَدْعُوهُمْ لَا يَسْمَعُوا دُعَاءَكُمْ وَلَوْ سَمِعُوا مَا اسْتَجَابُوا لَكُمْ ۖ وَيَوْمَ الْقِيَامَةِ يَكْفُرُونَ بِشِرْكِكُمْ ۚ وَلَا يُنَبِّئُكَ مِثْلُ خَبِيرٍ ‎﴿١٤﴾‏
(35-فاطر:14، 13)
اللہ کے سوا جن لوگوں کو تم پکارتے ہو، وہ کھجور کی گٹھلی کے پردے کے برابر بھی کسی چیز کے مالک نہیں۔ اگر تم انہیں پکارو تو وہ تمہاری پکار سن نہیں سکتے اور اگر وہ سن بھی لیں، تو تمہاری مراد پوری نہیں کر سکتے۔ قیامت کے روز یہ لوگ تمہارے شرک سے براءت کا اعلان کر دیں گے۔ تمہیں (اللہ) خبیر کی طرح کوئی خبر نہیں دے سکتا۔
وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّن يَدْعُو مِن دُونِ اللَّهِ مَن لَّا يَسْتَجِيبُ لَهُ إِلَىٰ يَوْمِ الْقِيَامَةِ وَهُمْ عَن دُعَائِهِمْ غَافِلُونَ ‎﴿٥﴾‏
(46-الأحقاف:5)
اس شخص سے بڑا گمراہ کون ہو سکتا ہے جو اللہ کے سوا ان لوگوں کو پکارتا ہے جو قیامت تک اس کی دادرسی نہیں کر سکتے۔ وہ تو ان کی پکار ہی سے غافل ہیں۔
اللہ تعالیٰ کا قانون ہے کہ مردے سن نہیں سکتے۔ البتہ دیگر کئی قواعد و قوانین کی طرح اس قاعدے میں بھی کچھ استثناءات موجود ہیں جو صحیح احادیث سے ثابت ہوتی ہیں، مثلاً مردے دفن کے بعد واپس جانے والوں کے جوتوں کی آواز سنتے ہیں، نیز بدر میں جہنم واصل ہونے والے کفار کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا خطبہ سنا تھا۔
کچھ لوگوں کو انہی استثناءات نے اس شبہ میں مبتلا کر دیا ہے کہ مردے سنتے ہیں، حالانکہ دلائل شرعیہ کی وجہ سے صرف یہی استثناءات اس کلی قاعدے سے خارج ہوں گے، عدم سماع موتی والا پورا قانون شریعت تبدیل نہیں ہو گا۔ جو لوگ ان استثناءات کی بنا پر اس کلی قاعدے کا انکار کر جاتے ہیں، ان سے گزارش ہے کہ اگر ان کے طرز عمل کو اپنا کر کوئی شخص دیگر کلی قواعد کا انکار کر دے، مثلاً آدم علیہ السلام کی بن ماں اور بن باپ پیدائش اور عیسیٰ علیہ السلام کی بن باپ کے پیدائش والی آیات کو لے کر انسانوں کے ماں اور باپ دونوں سے پیدا ہونے کے کلی قانون کا انکار کر دے یا مردہ حالت میں مچھلی کی حلت والی نص شرعی کو لے کر مردار کی حرمت والے کلی قاعدے کا انکار کر بیٹھے یا مردوں کے لیے چند انگلیوں کے برابر ریشم کی حلت والی حدیث کو بنیاد بنا کر مردوں کے لیے ریشم کی حرمت والے کلی قاعدے کا انکار کر دے۔۔۔ تو کیا یہ طرز عمل درست ہوگا؟
قرآن وسنت اور فہم سلف کی روشنی میں ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ مردے نہیں سنتے، البتہ وہ حالات و واقعات اس سے خارج ہیں، جن کی شریعت نے خود وضاحت کر دی ہے۔ یا مردے سنتے ہیں لیکن خاص ان حالات و واقعات میں جن کی نصوص شرعیہ میں تعیین و تخصیص ہو چکی ہے۔ جو شخص کسی حال میں کسی مردے کے کسی بات کو سننے کا دعویٰ کرے، اس کے پاس اس بارے میں ضرور کوئی خاص نص شرعی ہونی چاہیے، ورنہ اس کا دعویٰ باطل اور مردود ہونے کے ساتھ ساتھ شریعت اسلامیہ سے کھلواڑ اور مذاق متصور ہوگا۔ اگر کوئی شخص اپنے دعوے پر کوئی خاص نص شرعی پیش کر دے، تو کسی مسلمان کو اس خاص صورت میں مردے یا مردوں کے سننے کا انکار کرنے کی گنجائش نہیں رہے گی، البتہ اس خاص صورت کے علاوہ عام حالات میں مردوں کا نہ سن سکنا پھر بھی اپنی جگہ پر مسلمہ شرعی قانون رہے گا۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے