کیا مذی کے خروج پر وضو ضروری ہے؟
ماخوذ: فتاوی امن پوری از شیخ غلام مصطفی ظہیر امن پوری

سوال :

کیا مذی کے خروج پر وضو ضروری ہے؟

جواب :

مذی نجس ہے، اس کے خارج ہونے پر استنجا اور وضو ضروری ہے۔
❀ سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
كنت رجلا مذاء فأمرت رجلا أن يسأل النبى صلى الله عليه وسلم، لمكان ابنته، فسأل فقال: توضأ واغسل ذكرك.
”مجهے بهت زياده مذي آتي تهي، تو چونكه ميرے گهر نبي كريم صلى الله عليه وسلم كي بيٹي تهيں، اس ليے ميں نے ايک صحابي (مقداد رضی اللہ عنہ ) سے كها كه وه نبي كريم صلى الله عليه وسلم سے اس بارے سوال كرے، تو انهوں نے سوال كيا، آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمايا: وضو كيجئے اور اپني شرمگاه كو دهو ليجئے.“
(صحيح البخاري : 269، صحیح مسلم : 303)
❀ سیدنا سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں مذی کی بہت شدت پاتا تھا اور اکثر اس سے غسل کرتا، میں نے اس کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إنما يجزيك من ذلك الوضوء.
”وضو کافی ہے۔“
(سنن أبي داود : 210 ، سنن الترمذي : 115 ، سنن ابن ماجه : 506، وسنده حسن)
اس حدیث کو امام ترمذی رحمہ اللہ نے ”حسن صحیح“ کہا ہے، امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ (291) اور امام ابن حبان رحمہ اللہ(1103) ”صحیح “قرار دیا ہے۔
❀ سیدنا عبد اللہ بن سعد رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
أما الماء بعد الماء فهو المذي، وكل فحل يمذي فتغسل من ذلك فرجك وأنثييك وتوضأ وضوءك للصلاة.
”جس پانی كے بعد مني نكلتي ہے، اسے مذي كهتے ہيں اور ہر جوان كو مذي آتي ہے، چنانچه ايسي كيفيت ميں آپ شرمگاه اور خصيوں كو دهوليا كريں اور نماز والا وضو كر ليا كريں.“
(مسند الإمام أحمد : 342/4، سنن أبي داود : 211، سنن الترمذي : 133 ، سنن ابن ماجه : 651، وسنده حسن)
اس حدیث کو امام ترمذی رحمہ اللہ نے ”حسن غریب“ کہا ہے، امام ابن الجارود رحمہ اللہ (7) نے ”صحیح “قرار دیا ہے۔
❀ حافظ ابن عبد البر رحمہ اللہ (463ھ) فرماتے ہیں:
هو موضع إجماع لا خلاف بين المسلمين فى إيجاب الوضوء منه وإيجاب غسله لنجاسته.
”اس پر اجماع ہے، مسلمانوں کا کوئی اختلاف نہیں کہ مذی نکلنے پر وضو کرنا واجب ہے، نیز اسے دھونا بھی واجب ہے، کیونکہ یہ نجس ہے۔“
(التمهيد : 207/21)
❀ نیز فرماتے ہیں:
إجماعهم على أن المذي والودي فيهما الوضوء.
”اہل علم کا اجماع ہے کہ مذی اور ودی (کے خروج) پر وضو ہے۔“
(الاستذكار : 157/1)

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے