محدثین اور تقلیدی فقہاء کا اختلاف
سوال:
کیا محدثین اور فقہاء کے درمیان حدیث کے اصول یا قبولِ حدیث کے حوالے سے کوئی اختلاف موجود ہے؟ سنا گیا ہے کہ امام سیوطی کی مشہور کتاب تدریب الراوی میں یہ ذکر ہے کہ فقہاء کے ہاں حدیث قبول کرنے کا معیار محدثین کے معیار سے مختلف ہے۔ اسی وجہ سے ائمہ اربعہ، خاص طور پر امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا محدثین کے ساتھ اختلاف پایا جاتا ہے۔
جواب:
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
صحیح حدیث کی پانچ متفقہ شرائط
تمام اہل علم اس بات پر متفق ہیں کہ حدیث کو صحیح تسلیم کرنے کے لیے درج ذیل پانچ شرائط ضروری ہیں:
❀ عدل (راوی کا دیانتدار ہونا)
❀ ضبط (راوی کا حافظہ مضبوط ہونا)
❀ اتصال (سند کا متصل ہونا)
❀ عدم شذوذ (حدیث کا شاذ نہ ہونا)
❀ عدم علت قادحہ (کوئی خفیہ نقص نہ ہونا جو حدیث کو ناقابلِ قبول بنائے)
بعض فروعی و جزوی مسائل میں اختلاف
محدثین کرام اور بعض دیگر اہل علم کے درمیان کچھ فروعی اور جزوی مسائل میں اختلاف موجود ہے، مثلاً:
➊ ثقہ راوی کی زیادت
اگر وہ شذوذ سے پاک ہو تو کیا مطلقاً قبول کی جائے گی یا اسے مخالف سمجھا جائے گا؟
➋ جرح و تعدیل میں اختلاف
بعض راویوں کے بارے میں محدثین کے درمیان جرح و تعدیل میں اختلاف پایا جاتا ہے۔
محدثین اور فقہاء: صفاتی اور علمی ہم آہنگی
اگر یہاں مراد تقلیدی اور فرقہ پرست فقہاء نہ ہوں، تو محدثین اور فقہاء دراصل ایک ہی جماعت کے دو صفاتی عنوانات ہیں۔
مثال کے طور پر:
❀ امام بخاری رحمہ اللہ حدیث کے عظیم محدث اور "امیرالمؤمنین فی الحدیث” کہلاتے تھے۔ ان کے بارے میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
"وإمام الدنیا في فقه الحديث"
(تقریب التہذیب: ۵۷۲۷)
یعنی امام بخاری نہ صرف عظیم محدث بلکہ فقہ الحدیث کے امام بھی تھے۔
❀ امام مسلم رحمہ اللہ، صحیح مسلم کے مؤلف، ایک جید محدث تھے۔ ان کے بارے میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
"عالم بالفقه"
(تقریب التہذیب: ۶۶۲۳)
یعنی وہ فقہ میں بھی کامل دسترس رکھتے تھے۔
لہٰذا یہ کہنا کہ محدثین اور فقہاء دو الگ الگ جماعتیں ہیں، سراسر غلط ہے۔
تقلیدی فقہاء کی رویّے کی حقیقت
یہ بات درست ہے کہ تقلیدی اور فرقہ پرست فقہاء کا طرزِ عمل محدثین سے مختلف رہا ہے۔ وہ اپنی مرضی کے مطابق مرسل احادیث کو قبول یا رد کرتے ہیں۔ جب مرسل روایت ان کے مؤقف کے حق میں ہوتی ہے تو اسے حجت بنا لیتے ہیں، اور اگر خلاف ہو تو فوراً اسے مرسل یا منقطع کہہ کر رد کر دیتے ہیں۔
احادیث کے دورِ تدوین کے بعد بعض راویوں پر جرح و تعدیل کا عمل بھی ان کی خواہشات پر مبنی ہو جاتا ہے۔
ابو انور شاہ کشمیری دیوبندی فرماتے ہیں:
"میں نے ان لوگوں کو پرکھا ہے، یہ متناقض اصول بناتے ہیں، پس اس کے بعد ان سے اور کیا امید کی جا سکتی ہے؟ ان میں سے کوئی شخص جب اپنے مذہب کے موافق ضعیف حدیث پاتا ہے تو یہ قانون بنا دیتا ہے کہ تعددِ طرق کی وجہ سے ضعف اٹھ جاتا ہے، اور جب اپنے مذہب کے خلاف کوئی صحیح حدیث پاتا ہے تو فوراً قانون بنا دیتا ہے کہ یہ شاذ ہے۔”
(فیض الباری ج۲، ص۳۴۸؛ راقم الحروف کی کتاب: تعدادِ رکعات قیام رمضان کا تحقیقی جائزہ، ص۵۰)
تدریب الراوی جیسے مصادر اور اقوال کی نوعیت
کتاب تدریب الراوی اور اس جیسے دیگر مصادر میں کئی اقوال ملتے ہیں جو:
❀ صحیح یا ضعیف
❀ ثابت یا غیر ثابت
❀ موافق یا متعارض
ہو سکتے ہیں۔
ان اقوال کا صرف ایک درست طریقہ ہے کہ:
❀ ہر قول کی سند تلاش کی جائے
❀ اس کی تحقیق کی جائے
❀ تحقیق کے بعد اگر وہ ثابت نہ ہو تو اسے مردود اور ناقابلِ حجت قرار دیا جائے
تنبیہ بر تقلیدی فقہاء کے اصول
تقلیدی فقہاء کے جو نام نہاد اصول بیان کیے جاتے ہیں، ان کا باسند صحیح ائمہ اربعہ سے کوئی ثبوت نہیں ملتا۔
مثلاً:
❀ بعض لوگ دعویٰ کرتے ہیں کہ امام ابو حنیفہ یا امام مالک رحمہما اللہ کے نزدیک مرسل حدیث حجت ہے۔
جبکہ اس بات کا کوئی صحیح یا حسن سند سے ثبوت موجود نہیں ہے۔
اگر نفس پرستی کو چھوڑ کر فریقین (محدثین اور فقہائے محدثین) کے مسلم اصولوں کی طرف رجوع کیا جائے، تو حدیث کے صحیح یا ضعیف ہونے کا مسئلہ فوراً حل ہو جاتا ہے۔ اور یہی نجات کا راستہ ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب