کیا لڑکیوں کی پیدائش کا طبی علاج شرعی ہے؟ مکمل وضاحت
ماخوذ: احکام و مسائل، تعویذ اور دم کے مسائل، جلد 1، صفحہ 464

عورت کے ہاں مسلسل لڑکیاں پیدا ہونا اور اس کا طبی علاج – شرعی نقطۂ نظر

سوال:

علمائے کرام کی خدمت میں سوال ہے کہ ایک ڈاکٹر کا کہنا ہے کہ اگر کسی عورت کے ہاں بار بار لڑکیاں پیدا ہوں اور لڑکا نہ ہو، تو یہ "اُٹھرا” (ایک مخصوص بیماری) کی قسم ہے۔ وہ ڈاکٹر اس کا علاج کرتا ہے، اور دوائی دیتے وقت مریضوں کو واضح کرتا ہے کہ:

بیٹے اور بیٹیاں دینا اللہ کے اختیار میں ہے۔

میں ایک فیصد بھی دعویٰ نہیں کرتا کہ دوائی سے ضرور لڑکا پیدا ہو گا۔

اگر اللہ چاہے تو لڑکا عطا فرما سکتا ہے۔

میں صرف علاج کرتا ہوں، شفا دینا اور لڑکا دینا اللہ کے اختیار میں ہے۔

سوال یہ ہے کہ قرآن و حدیث کی روشنی میں کیا اس قسم کا علاج کرنا درست ہے یا غلط؟ براہ کرم وضاحت فرمائیں۔

جواب:

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

ایک حدیث میں وارد ہے کہ ایک یہودی نے رسول اللہ ﷺ سے سوال کیا، جس کے جواب میں آپ ﷺ نے فرمایا:

«مَآءُ الرَّجُلِ اَبْيَضُ وَمَآءُ الْمَرْاَةِ اَصْفَرُ فَاِذَا اجْتَمَعَا فَعَلاَ مَنِیُّ الرَّجُلِ مَنِیَّ الْمَرْاَةِ اَذْکَرَا بِاِذْنِ اﷲِ وَاِذَا عَلاَ مَنِیُّ الْمَرْاَةِ مَنِیَّ الرَّجُلِ آنَثَا بِاِذْنِ اﷲِ»

(صحيح مسلم، كتاب الحيض، باب بيان صفة منى الرجل والمراة)

ترجمہ:
مرد کا مادۂ تولید سفید ہوتا ہے اور عورت کا زرد۔ جب یہ دونوں جمع ہوتے ہیں، اور مرد کا مادہ غالب آتا ہے تو اللہ کے حکم سے بیٹا پیدا ہوتا ہے۔ اور جب عورت کا مادہ غالب ہوتا ہے تو اللہ کے حکم سے بیٹی پیدا ہوتی ہے۔
یہودی نے اس بات کی تصدیق کی کہ واقعی یہی بات ان کی کتابوں میں بھی مذکور ہے۔

اس حدیث سے حاصل ہونے والا شرعی حکم:

✿ اگر کسی دوا کے ذریعے مرد کے مادہ تولید کو بڑھا دیا جائے تاکہ وہ غالب آ جائے، تو یہ شرک نہیں۔

✿ نہ ہی یہ اللہ کے اختیارات میں مداخلت ہے۔

✿ جیسے دیگر بیماریوں کا علاج جائز ہے اور معالج اور مریض دونوں اس بات پر ایمان رکھتے ہیں کہ علاج محض ایک ذریعہ ہے، اصل شفاء دینے والا اللہ تعالیٰ ہی ہے۔

✿ اسی طرح یہاں بھی اگر اسی عقیدے کے ساتھ علاج کیا جائے کہ:

❀ دوا محض ایک سبب ہے،

❀ اولاد دینا، بیٹا یا بیٹی عطا کرنا اللہ کے اختیار میں ہے،

❀ تو یہ شرعی طور پر درست عمل ہے۔

✿ اسباب اختیار کرنا شرک یا کفر نہیں بناتا، جب تک کہ انسان کا عقیدہ کتاب و سنت کے مطابق درست ہو۔

علما کرام کی تائید:

مولانا محمد اعظم صاحب نے اس جواب کی تصدیق کرتے ہوئے فرمایا:
’’اَلْجَوَابُ صَحِیْحٌ‘‘

شیخ الحدیث مولانا محمد عبداللہ صاحب نے فرمایا:
’’لَقَدْ اَصَابَ مَنْ اَجَابَ‘‘

حافظ عبدالمنان نور پوری صاحب نے فرمایا:
’’استاذی المکرم مولانا محمد عبداللہ صاحب حفظہ اللہ تعالیٰ کے جواب کا ترجمہ ہے: جواب دینے والوں نے یقینا درست جواب دیا ہے، یہ فقیر الی اللہ بھی اس کی تائید کرتا ہے۔‘‘

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے