قے کرنے سے روزہ ٹوٹنے کا حکم
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
روزے کی حالت میں قے آنے کے بارے میں شریعت کا حکم درج ذیل ہے:
➊ جان بوجھ کر قے کرنے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے
◈ اگر کوئی شخص ارادۃً یعنی جان بوجھ کر قے کرے تو اس کا روزہ ٹوٹ جائے گا۔
◈ ایسی صورت میں قضا لازم ہوگی یعنی بعد میں اس روزے کی تلافی کرنا پڑے گی۔
➋ بغیر ارادے کے قے ہو جائے تو روزہ نہیں ٹوٹتا
◈ اگر قے خود بخود بغیر کسی ارادے کے ہو جائے تو اس سے روزہ نہیں ٹوٹتا۔
◈ ایسی حالت میں روزہ برقرار رہتا ہے اور اس پر قضا واجب نہیں ہوتی۔
➌ حدیث مبارکہ سے دلیل
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«مَنْ ذَرَعَهُ الْقَيْئُ فَلا قضاءَ عَلَيْهٌِ وَمَنِ اسْتَقَاءَ عَمَدًا فَلْيَقْضِ»
(سنن ابي داؤد، الصوم، باب الصائم يستقی عمدا، ح: ۲۳۸۰، جامع الترمذی، الصوم باب ماجاء فيما استقاء عمدا، ح: ۷۲۰)
ترجمہ:
"جسے خود بخود قے آجائے، اس پر قضا نہیں ہے اور جو شخص جان بوجھ کر قے کرے، وہ قضا ادا کرے۔”
➍ قے کے غالب آجانے کی صورت میں کیا کیا جائے؟
◈ اگر قے کا غلبہ ہو جائے اور معدہ میں موجود چیزیں باہر نکلنے کا اندیشہ ہو:
✿ ایسی حالت میں قے کو نہ روکیں اور نہ ہی جان بوجھ کر کریں۔
✿ نہ اسے واپس نگلنے کی کوشش کریں اور نہ ارادۃً قے کو لائیں۔
✿ عام حالت میں کھڑے رہیں اور جو ہونا ہے اسے ہونے دیں۔
◈ اگر قے ارادۃً نہیں ہوئی بلکہ خود بخود ہوئی تو اس سے نہ روزے کو نقصان ہوگا اور نہ ہی روزہ ٹوٹے گا۔
◈ اگر قے کو روکنے کی کوشش کی تو یہ عمل تکلیف دہ ہوگا، لہٰذا فطری طریقے سے اسے ہونے دینا بہتر ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب