کیا قرآن کا کچھ حصہ بکری کھا گئی تھی؟
شمارہ السنہ جہلم

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں:
لَقَدْ أُنْزِلَتْ آيَةُ الرَّجْمِ وَرَضَعَاتُ الْكَبِيرِ عَشْرًا ، فَكَانَتْ فِي وَرَقَةٍ تَحْتَ سَرِيرٍ فِي بَيْنِي ، فَلَمَّا اشتكى رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَشَاغَلْنَا بِأَمْرِهِ ، وَدَخَلَتْ دُوَيْبَةٌ لَّنَا فَأَكَلَتْهَا .
آیت رجم اور آیت رضعات کبیر دس بار پینے سے ثابت ہوتی ہے ، نازل ہوئی تھیں ۔ یہ آیات میری چارپائی کے نیچے رکھی تھیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یا ہم کو بخار نے آ لیا ، ہم آپ کی طرف مشغول ہو گئے ، تب ایک بکری آئی اور ان دو آیات کو کھا گئی ۔ [مسند أحمد: ٢٦٩/٦ ، وسنده حسنٌ]
بعض لوگ اس سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ نعوذ باللہ قرآن کو بکری کھا گئی ، لہٰذا قرآن محفوظ کیسے؟
تو جواباً عرض ہے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے جن دو آیات کا ذکر کیا ہے ، ان کی تو تلاوت ہی منسوخ ہو چکی تھی ، جیسا کہ صحیح مسلم (1352) دس بار رضاعت اور صحیح بخاری (6830) میں آیت رجم کی منسوخیت کا ذکر ہے ۔ یہ دو آیات ہی بکری نے کھائی ہیں ۔ لہٰذا جن آیات کی تلاوت منسوخ ہو چکی ہے ، بکری نہ بھی کھاتی تو بھی قرآن میں ان کا ذکر نہیں ہوتا تھا ۔ تو اس کی بنیاد پر قرآن کو ناقص قرار دینا کہاں کا انصاف ہے؟
یہ آیات منسوخ نہ ہوتیں تب بھی بکری کے ایک آیت کھانے سے ایسا کچھ لازم نہیں آتاکہ نعوذ باللہ قرآن میں کمی آگئی ، کیوں کہ وہ قرآن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کے سینوں میں تو موجود تھا ۔
﴿بَلْ هُوَ آيَاتٌ بَيِّنَاتُ فِي صُدُورِ الَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ وَمَا يَجْحَدُ بِآيَاتِنَا إِلَّا الظَّالِمُونَ﴾ [العنكبوت: ٤٩]
اللہ نے قرآن کی حفاظت کا ذریعہ اہل علم کے سینوں کو قرار دیا ہے ۔ معلوم ہوا کہ قرآن محفوظ ہے ، بعض حضرات کا اسے غیر محفوظ باور کروانا سطحی ہے ۔
فرمان باری تعالیٰ ہے:
نوٹ:
﴿إنَّانَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ﴾ [الحجر: ٩]
”ہم نے اس ذکر کو نازل کیا ، ہم ہی اس کے محافظ ہیں ۔ “
ہماری بحث ان آیات سے ہے ، جنہیں بکری نے کھایا ، وہ دس تھیں ، پانچ رضعات والی آیت کی تلاوت بھی منسوخ ہے اور حکم باقی ہے ، لیکن یہاں اس پر بحث نہیں ، کیوں کہ اس کا تعلق نہ تو مذکور و شبہ سے ہے ، نہ ہی بکری کے کھانے سے ۔ فاضہم !

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں: