کیا قرآنی و مسنون دعا کا صیغہ تبدیل کیا جا سکتا ہے؟
ماخوذ : فتاوی علمیہ، جلد 3۔ متفرق مسائل – صفحہ 287

سوال

کیا قرآنی یا مسنون دعا میں صیغہ بدلا جا سکتا ہے؟

مثلاً:

(يَا حَيُّ يَا قَيُّومُ بِرَحْمَتِكَ أَسْتَغِيثُ) کو (نَسْتَغِيثُ) پڑھنا؟

(ایک سائلہ)

جواب

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اصولاً بہتر یہی ہے کہ قرآن و حدیث میں وارد دعاؤں کو انہی الفاظ (صیغوں) میں پڑھا جائے جیسے یہ وارد ہوئی ہیں۔

البتہ، دو دلائل کی بنیاد پر بعض اوقات صیغہ بدلنا یعنی واحد کی جگہ جمع کا صیغہ استعمال کرنا جائز ہے:

1️⃣ امام کی صورت میں

اگر کوئی امام ہو تو وہ دعائے قنوت یا کسی اور دعا میں صرف اپنی ذات کے لیے ہی دعا نہ کرے بلکہ اپنے مقتدیوں کو بھی دعا میں شریک کرے۔ جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

"لَا يَؤُمُّ رَجُلٌ قَوْمًا فَيَخُصُّ نَفْسَهُ بِالدُّعَاءِ دُونَهُمْ ، فَإِنْ فَعَلَ فَقَدْ خَانَهُمْ "

"کوئی آدمی بھی لوگوں کو نماز پڑھاتے وقت ان کے علاوہ صرف اپنے لیے دعا (دعائے قنوت) نہ مانگے اور اگر اس نے ایسا کیا تو خیانت کی۔”

(سنن ابی داؤد 90 وسندہ حسن، سنن ترمذی 357، سنن ابن ماجہ 619۔923)

2️⃣ تشہد میں دعا کے بارے میں

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تشہد کے موقع پر دعا کے بارے میں فرمایا:

"ثم ليتخير من الدعاء أَعْجَبَهُ إِلَيْهِ فَلْيَدْعُ بِهِ”

"پھر جو دعا بھی پسند ہوتو وہ مانگے۔”

(صحیح بخاری، کتاب الأذان، باب ما يتخير من الدعاء بعد التشهد وليس بواجب، ح 835)

مزید وضاحت

جب تشہد کے موقع پر عربی زبان میں کوئی بھی دعا مانگی جا سکتی ہے تو دعائے قنوت میں بدرجہ اولیٰ دوسری دعا بھی جائز ہے۔

تشہد میں "السلام عليك أيها النبي” کے صیغے کو سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور بعض صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے "السلام على النبي” سے بدل دیا تھا۔

(دیکھئے: صحیح بخاری، کتاب الاستئذان، باب الاخذ باليدين، ح 6265)

نتیجہ

ثابت ہوا کہ ضرورت کے وقت مسنون دعا کا صیغہ بدلنا جائز ہے۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1