کیا قبر میں عذاب ہوتا ہے؟ احادیث کی روشنی میں
ماخوذ: فتاوی امن پوری از شیخ غلام مصطفی ظہیر امن پوری

سوال:

کیا قبر میں عذاب ہوتا ہے؟

جواب:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث میں فتنہ قبر اور عذاب قبر کے متعلق تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔ ابتداً نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو عذاب قبر کا علم نہیں تھا، پھر وحی کے ذریعے آپ کو بتایا گیا کہ قبر میں عذاب ہوتا ہے۔ آپ نے قرآن مجید کی آیات کی تفسیر میں عذاب قبر کا ذکر کیا اور اس سے پناہ مانگنے کی دعائیں سکھائیں۔
❀ حافظ ابن عبدالبر رحمہ اللہ (463ھ) فرماتے ہیں:
عذاب قبر کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول احادیث اتنی ہیں کہ ان کا شمار نہیں کیا جا سکتا۔ یہ متواتر، مشہور اور صحیح آثار ہیں۔ اسی طرح صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہم اللہ سے بھی بکثرت روایات وارد ہوئی ہیں، جنہیں دلیل بنانا واجب ہے۔
(الأجوبة عن المسائل المستغربة من كتاب البخاري، ص 190)
❀ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں:
ایک یہودی خاتون نے ان سے عذاب قبر کا ذکر کیا اور کہا: اللہ آپ کو عذاب قبر سے بچائے۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بارے میں پوچھا، تو آپ نے فرمایا: ہاں، عذاب قبر حق ہے۔
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ اس کے بعد میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہر نماز میں عذاب قبر سے پناہ مانگتے دیکھا۔
(صحيح البخاري: 1372، صحيح مسلم: 584)
❀ نیز بیان کرتی ہیں:
ایک یہودیہ میری خدمت کرتی تھی۔ جب میں اس سے کوئی نیکی کرتی، تو وہ کہتی: اللہ آپ کو عذاب قبر سے بچائے۔ میں نے یہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ذکر کی اور عرض کیا: کیا قیامت سے پہلے قبر میں عذاب ہوگا؟ آپ نے فرمایا: نہیں۔ پھر میں نے کہا: یہ یہودیہ ہر بار نیکی پر یہی کہتی ہے۔ آپ نے فرمایا: یہود جھوٹ بولتے ہیں، اللہ پر سب سے زیادہ جھوٹ انہوں نے بولا۔ قیامت سے پہلے کوئی عذاب نہیں۔ پھر کچھ دن بعد دوپہر کے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کپڑے پہنے ہوئے نکلے، آپ کی آنکھیں سرخ تھیں۔ آپ بلند آواز سے پکار رہے تھے: لوگو! فتنے تمہیں اس طرح گھیر لیں گے جیسے اندھیری رات۔ لوگو! اگر تم وہ باتیں جان لو جو میں جانتا ہوں، تو تم زیادہ روؤ اور کم ہنسو۔ لوگو! اللہ سے عذاب قبر سے پناہ مانگو، بے شک عذاب قبر حق ہے۔
(مسند الإمام أحمد: 6/81، وسندہ صحيح)
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لولا ان لا تدافنوا لدعوت الله ان يسمعكم من عذاب القبر
اگر یہ ڈر نہ ہوتا کہ تم مردوں کو دفنانا چھوڑ دو گے، تو میں اللہ سے دعا کرتا کہ وہ تمہیں عذاب قبر سنوا دے۔
(صحيح مسلم: 2868)
❀ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ مزید بیان کرتے ہیں:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بنو نجار کے ایک باغ میں داخل ہوئے۔ آپ نے ایک قبر سے آواز سنی اور پوچھا: یہ قبر والا کب دفن کیا گیا؟ لوگوں نے کہا: دور جاہلیت میں۔ آپ اس بات سے خوش ہوئے اور فرمایا: اگر یہ ڈر نہ ہوتا کہ تم مردوں کو دفنانا چھوڑ دو گے، تو میں اللہ سے دعا کرتا کہ وہ تمہیں عذاب قبر سنوا دے۔
(مسند الإمام أحمد: 3/103، سنن النسائي: 2058، وسندہ صحيح)
اس حدیث کو امام ابن حبان رحمہ اللہ (3126) نے صحیح کہا ہے۔
❀ علامہ توربشتی رحمہ اللہ (661ھ) لکھتے ہیں:
یہ کلام مجمل ہے۔ اس کا ظاہری معنی یہ ہے کہ اگر لوگ عذاب قبر سن لیں، تو اس سے بچنے کے لیے دفن کرنا چھوڑ دیں۔ یہ معنی محل نظر ہے، کیونکہ مومن سے ایسی توقع نہیں کی جا سکتی۔ مومن پر واجب ہے کہ وہ اللہ کے متعلق یہ عقیدہ رکھے کہ جب اللہ کسی کو عذاب دینا چاہے، تو وہ اسے عذاب دے گا، خواہ وہ مچھلیوں کے پیٹوں یا پرندوں کے پروں میں ہو۔ اللہ کی ازلی قدرت کے سامنے زمین کا اندرونی اور بیرونی حصہ برابر ہے۔ مومنوں کو مردوں کو دفنانے کا حکم ہے، اور دسترس میں ہو تو اسے ترک کرنا جائز نہیں۔ ہم اپنے علم و فہم کی حد تک اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ اگر لوگ عذاب قبر سن لیں، تو ان کی پریشانی عام ہو جائے گی، خوف ان کے دلوں کو چیر دے گا، اور میت سڑ گل جائے گی، مگر لوگ اسے دفن نہ کریں۔
(الميسر في شرح مصابيح السنة: 1/72-73)

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے