سوال:
کیا فوت شدگان پر زندوں کے اعمال پیش کیے جاتے ہیں؟
جواب:
فوت شدگان پر ان کے قریبی رشتہ داروں کے اعمال کا پیش کیا جانا ثابت نہیں، یہ بے دلیل موقف ہے۔ اس بارے میں ساری کی ساری مرفوع و موقوف روایات ضعیف و غیر ثابت ہیں۔
❀ سیدنا ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
تعرض على الموتى أعمالكم فإن رأوا خيرا استبشروا وقالوا: اللهم هذه نعمتك فأتممها على عبدك وإن رأوا سيئة قالوا: راجع عبدك، فلا تخزهم بالعمل السيئ فإن أعمالكم تعرض عليهم
فوت شدگان پر آپ کے اعمال پیش کیے جاتے ہیں، اگر وہ اچھا عمل دیکھیں، تو خوش ہو جاتے ہیں اور کہتے ہیں: اللہ! یہ تیری نعمت ہے، اپنے بندے پر اپنی نعمت تمام کر دے۔ اگر برا عمل دیکھتے ہیں، تو کہتے ہیں: اللہ! اپنے بندے کو توبہ کی توفیق دے۔ لہذا آپ اپنے فوت شدگان کو برے اعمال کی وجہ سے غم زدہ مت کریں، کیونکہ آپ کے اعمال ان پر پیش کیے جاتے ہیں۔
(كتاب المجروحين لابن حبان: 340/1، الكامل لابن عدي: 311/4)
سند باطل ہے۔ سلام الطویل ضعیف و متروک ہے۔
سیدنا جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إن أعمالكم تعرض على عشائركم وأقربائكم فى قبورهم، فإن كان خيرا استبشروا به، وإن كان غير ذلك قالوا: اللهم ألهمهم أن يعملوا بطاعتك
آپ کے اعمال آپ کے فوت شدہ خاندان کے افراد اور قریبی رشتہ داروں کو ان کی قبروں میں پیش کیے جاتے ہیں، اگر وہ عمل خیر ہو، تو وہ خوش ہو جاتے ہیں اور اگر برا عمل ہو، تو کہتے ہیں: اے اللہ! انہیں توفیق دے کہ وہ تیری اطاعت بجا لائیں۔
(مسند أبي داود الطيالسي: 1903)
➊ سند باطل ہے۔
➋صلت بن دینار ضعیف و متروک ہے۔
➌حسن بصری کا عنعنہ ہے۔
❀ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إن أعمالكم تعرض على أقاربكم وعشائركم من الأموات، فإن كان خيرا استبشروا به، وإن كان غير ذلك، قالوا: اللهم لا تمتهم، حتى تهديهم كما هديتنا
آپ کے اعمال آپ کے فوت شدہ رشتہ داروں اور خاندان کے افراد پر پیش کیے جاتے ہیں، اگر وہ عمل خیر ہو، تو وہ خوش ہو جاتے ہیں اور اگر برا عمل ہو، تو کہتے ہیں: اے اللہ! تو انہیں اس وقت تک موت نہ دینا، جب تک انہیں ہدایت نہ دے دے، جیسے تو نے ہمیں ہدایت دی تھی۔
(مسند الإمام أحمد: 164/3)
سند ضعیف ہے۔
سفیان ثوری رحمہ اللہ مدلس ہیں، سماع کی تصریح نہیں کی۔ سفیان کا شیخ مبہم و نامعلوم ہے۔
❀ سیدنا ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إن أعمالكم تعرض على أقاربكم وعشائركم من أهل الآخرة، فإن كان خيرا فرحوا واستبشروا، وقالوا: اللهم هذا فضلك ورحمتك فأتمم نعمتك عليه، وأمته عليها ويعرض عليهم عمل المسيء، فيقولون: اللهم ألهمه عملا صالحا ترضى به عنه وتقربه إليك
آپ کے اعمال آپ کے فوت شدہ رشتہ داروں اور خاندان کے افراد پر پیش کیے جاتے ہیں، اگر وہ عمل خیر ہو، تو وہ خوش ہو جاتے ہیں اور کہتے ہیں: اللہ! یہ تیرا فضل اور رحمت ہے، اس پر اپنی نعمت تمام کر دے اور اسے اسی حالت پر موت دینا۔ جب برے آدمی کا عمل پیش کیا جائے تو کہتے ہیں: اے اللہ! تو اسے عمل صالح کی توفیق دے، کہ تو اس سے راضی ہو جائے اور تو اسے اپنا قرب عطا کر دے۔
(المعجم الكبير للطبراني: 129/4، المعجم الأوسط للطبراني: 148)
➊ سند باطل ہے۔
➋مسلمہ بن علی متروک و منکر الحدیث ہے۔
➌ عبدالرحمن بن سلامہ کے حالات زندگی نہیں ملے۔
➍ المعجم الكبير للطبراني (130/4) والی سند بھی ضعیف ہے۔
➎ محمد بن اسماعیل بن عیاش کی توثیق نہیں۔
➏ یہ اپنے باپ سے ان سنی روایات بیان کر دیتا تھا۔ عبدالرحمن بن سلامہ مجہول ہے۔
❀ سیدنا ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:
تعرض أعمالكم على الموتى، فإن رأوا حسنا فرحوا واستبشروا وقالوا: اللهم هذه نعمتك على عبدك فأتمها عليه، وإن رأوا سوء قالوا: اللهم راجع به
آپ کے اعمال فوت شدگان پر پیش کیے جاتے ہیں، اگر وہ عمل خیر دیکھیں، تو خوش ہو جاتے ہیں اور کہتے ہیں: اللہ! یہ تیری اپنے بندے پر نعمت ہے، تو اس پر نعمت تمام کر دے اور جب برا عمل دیکھتے ہیں، تو کہتے ہیں: اے اللہ! اسے رجوع کی توفیق دے۔
(المنامات لابن أبي الدنيا: 3)
➊ سند ضعیف ہے۔
➋ثور بن یزید کلاعی نے ابو رہم احزاب بن اسید کا زمانہ نہیں پایا۔