کیا فقر و فاقہ کی شکایت والی روایت ثابت ہے؟

شماررہ السنہ جہلم

سوال: کیا یہ روایت ثابت ہے؟ ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر فقر و فاقہ کی شکایت کرنے لگا ، آپ نے اسے شادی کا مشورہ دیا ۔
!
جواب:
روایت کے الفاظ یہ ہیں:
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَشْكُو إِلَيْهِ الفَاقَةَ ، فَأَمَرَهُ أَن يَتَزَوَّجَ .
”ایک شخص نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے غربت کا شکوہ کیا ، فرمایا: شادی کر لیں ۔“
[تاريخ بغداد للخطيب: 382/1]
تبصرہ:
سخت ترین ”ضعیف“ ہے ۔
سعید بن محمد مدنی کے بارے میں امام ابوحاتم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
حَدِيثُهُ لَيْسَ بِشَيْءٍ .
”اس کی حدیث معتبر نہیں ۔ “
[الجرح والتعديل لابن أبى حاتم: ٥٨/٤ ، الرقم: ٢٥٧]
امام ابن حبان رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
يُقَلِّبُ الْأَخْبَارَ رَوَى عَنِ ابْنِ الْمُنْكَدِرِ بِنُسْخَةٍ مِّنْهَا أَشْيَاءُ مُسْتَقِيمَةٌ تُشْبِهُ حَدِيثَ الثَّقَاتِ وَأَشْيَاء مَقْلُو بَةٌ لَّا تُشْبِهُ حَدِيثَ الْأَثْبَاتِ لَا يَجُوزُ الِاحْتِجَاجُ بِخَبَرِهِ إِذَا انْفَرَدَ .
احادیث الٹ پلٹ کرتا تھا ۔ اس نے ابن منکدر سے ایک نسخہ روایت کیا تھا ، جس میں چند مستقیم احادیث تھیں ، جو ثقہ راویوں کی احادیث کے مشابہ تھیں اور چند مقلوب روایات تھیں ، جو ثقات کی احادیث کے مشابہ نہیں تھیں ۔ جب یہ منفرد ہو ، تو اس کی روایت سے حجت پکڑنا جائز نہیں ۔
[المجروحين من المحدثين والضعفاء والمتروكين: ٣٢٦/١]
اللہ کا فرمان اس روایت سے مستغنی کر دیتا ہے:
وَأَنْكِحُوا الْأَيَامَى مِنْكُمْ وَالصَّالِحِينَ مِنْ عِبَادِكُمْ وَإِمَائِكُمْ إِنْ يَكُونُوا فُقَرَاءَ يُغْنِهِمُ اللهُ مِنْ فَضْلِهِ وَاللهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ .
[سورة النور: 32]
”اپنے بے نکاح مردوں ، عورتوں اور پارسا غلاموں ، لونڈیوں کا نکاح کر دیں ۔ وہ غریب و نادار ہوں ، تو اللہ اپنے فضل سے انہیں غنی کر دے گا ۔ اللہ بہت وسعت والا اور علم والا ہے ۔“
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی نصیحت ملاحظہ ہو:
سعید بن جبیر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ مجھ سے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے پوچھا:
شادی کی ہے؟ عرض کیا: جی نہیں ، فرمایا:
فَتَزَوَّجُ ، فَإِنَّ خَيْرَ هَذِهِ الأُمَّةِ أَكْثَرُهَانِسَاءً .
شادی کر لیں ، اس امت کی سب سے بہترین ہستی (نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ) کی سب سے زیادہ بیویاں تھیں ۔“
[صحيح البخاري: ٥٠٦٩]
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما زیادہ شا دیوں سے نیک فال لے رہے ہیں اور ایک منفرد انداز سے اپنے شاگرد کو نکاح کی ترغیب دے رہے ہیں ، استدلال میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے تعدد نکاح کو پیش کر رہے ہیں ، کیوں کہ نکاح خیر و برکت کا باعث ہیں ۔
مسلمان غفلت کا شکار ہے ، اولاد بالغ ہو جاتی ہے ، ان کی شادیاں نہیں کرتے ۔ اگر پوچھا جائے تو کہتے ہیں کہ جب یہ اپنے پاؤں پر کھڑا ہو جائے گا ، تب شادی کریں گے ۔ نہ پاؤں پر کھڑا ہوتا ہے ، نہ شادی ہوتی ہے ، حالاں کہ شادی ہوتی ہی پاؤں پر کھڑا کرنے کے لیے ہے ۔ جب عمر ڈھلنے لگتی ہے ، پھر جا کر شادی کرتے ہیں ، مزے کی بات یہ کہ اس وقت بھی وہ پاؤں پر کھڑے نہیں ہو پاتے ۔ حالات کو شادی کے لیے آڑ نہیں بنانا چاہیے ۔ نکاح خیر والا عمل ہے ۔ ایک مؤمن کو اس کے عوض میں ڈھیروں خیر و برکت نصیب ہو جاتی ہے ۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
لنکڈان
ٹیلی گرام
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
پرنٹ کریں
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں: