سوال کا مفصل جواب
سوال:
اگر فجر کی سنتیں جماعت سے پہلے ادا نہ کی جا سکیں تو کیا فرض نماز کے بعد انہیں ادا کرنا جائز ہے؟ اس بارے میں صحیح حدیث سے دلیل فراہم کریں۔ جبکہ ایک روایت میں مذکور ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ظہر کی دو رکعات عصر کے بعد پڑھی تھیں، مگر وہ روایت صرف ایک دن کی ہے۔ مشکوٰۃ صفحہ ۹۵ پر روایت موجود ہے:
«عَنْ مُحَمَّدِ ابْنِ اِبْرَاهِيْمَ عَنْ قَيْسِ بْنِ عَمْرٍو»
قیس بن عمرو رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے ایک شخص کو فجر کے فرض کے بعد دو رکعتیں ادا کرتے دیکھا، تو دریافت کیا، اس نے کہا: میری دو سنتیں رہ گئی تھیں، تو آپ ﷺ خاموش ہو گئے۔
مگر امام ترمذی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ روایت متصل نہیں کیونکہ محمد بن ابراہیم نے قیس بن عمرو سے سنا نہیں، لہٰذا یہ منقطع روایت ہے اور منقطع روایت حجت نہیں ہوتی۔
نیز امام طحاوی رحمہ اللہ نے ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے جو حدیث بیان کی کہ انہوں نے دریافت کیا:
"کیا ہم (نماز) قضاء دیں؟” تو آپ ﷺ نے فرمایا: "نہیں”،
اس حدیث کی سند کی وضاحت بھی درکار ہے۔
جواب
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اگر فجر کی سنتیں جماعت سے قبل ادا نہ کی جا سکیں، تو فرض نماز کے بعد اور طلوع آفتاب سے پہلے انہیں ادا کرنا درست ہے۔
اولاً: فجر کی سنتوں کا وقت
◈ فجر کی سنتوں کا وقت بھی سورج طلوع ہونے تک باقی رہتا ہے، بالکل فجر کے فرض کی طرح۔
◈ اگر نماز کسی شرعی وجہ سے وقت کے اندر ادا کی جائے تو وہ اداء کہلاتی ہے، اور اگر وقت گزرنے کے بعد ہو تو وہ قضاء کہلاتی ہے۔
◈ ہر علم رکھنے والا جانتا ہے کہ اداء قضاء پر مقدم ہے۔
ثانیاً: قیس بن عمرو رضی اللہ عنہ کی حدیث
◈ جس حدیث کا حوالہ امام ترمذی رحمہ اللہ نے دیا کہ وہ منقطع ہے، وہ واقعی سند کے اعتبار سے منقطع ہے، کیونکہ محمد بن ابراہیم نے قیس بن عمرو سے براہ راست روایت نہیں کی۔
◈ مگر یہی قیس رضی اللہ عنہ کی حدیث دیگر کتب حدیث میں متصل سند کے ساتھ موجود ہے:
◈ المستدرک للحاکم
◈ صحیح ابن حبان
◈ صحیح ابن خزیمہ
◈ سنن دار قطنی
ان کتب میں یہ روایت متصل طور پر منقول ہے، جو کہ حجت ہے۔
ظہر کے بعد کی دو رکعتیں جو عصر کے بعد پڑھی گئیں
◈ نبی اکرم ﷺ نے ظہر کے بعد کی دو رکعتیں عصر کے بعد صرف ایک دن قضاء کے طور پر ادا فرمائیں۔
◈ اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ کسی خاص صورت میں قضاء کی جا سکتی ہے۔
حدیثِ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی وضاحت
◈ ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے عرض کیا:
"کیا ہم قضاء دیں؟” تو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: "نہیں”
◈ بعض اہل علم نے اس روایت کو ضعیف قرار دیا ہے۔
◈ مگر بعض نے اسے حسن کہا ہے، مثلاً:
◈ "حدیث حسن، أخرجہ فی المسند باسناد جید”
◈ تحقیق: ابن باز رحمہ اللہ نے "فتح الباری، کتاب مواقیت الصلاۃ” میں اس حدیث کو حسن قرار دیا ہے۔
خلاصہ
◈ فجر کی سنتیں اگر جماعت سے قبل رہ جائیں تو فرض کے بعد اور سورج طلوع ہونے سے پہلے انہیں پڑھنا جائز ہے۔
◈ قیس بن عمرو رضی اللہ عنہ کی حدیث معتبر کتب میں صحیح اور متصل سند کے ساتھ موجود ہے، لہٰذا اس سے دلیل لی جا سکتی ہے۔
◈ ام سلمہ رضی اللہ عنہا والی حدیث کو بعض نے حسن اور بعض نے ضعیف قرار دیا ہے، مگر یہ حدیث مکمل طور پر رد نہیں کی گئی۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب
(یہی میرے علم میں ہے، اور اللہ ہی زیادہ درست جانتا ہے۔)