کیا عمرہ کے بعد سونے کے بعد طوافِ وداع دوبارہ واجب ہے؟
ماخوذ: فتاویٰ ارکان اسلام

سوال

ایک شخص نے صبح کے وقت طوافِ وداع کر لیا، پھر آرام کی غرض سے سو گیا اور اس کے بعد عصر کے وقت سفر کا ارادہ کیا، تو کیا اس پر دوبارہ طوافِ وداع کرنا لازم ہوگا؟

جواب

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اگر کوئی شخص عمرہ یا حج ادا کرنے کے بعد طوافِ وداع کرتا ہے، اور پھر کچھ وقت مکہ مکرمہ میں مزید قیام کرتا ہے (جیسا کہ مذکورہ شخص نے کیا کہ طوافِ وداع کے بعد سو گیا اور پھر عصر کے بعد روانگی کا ارادہ کیا)، تو اس پر دوبارہ طوافِ وداع کرنا واجب ہوگا۔ اس کی بنیاد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث پر ہے:

«لَايَنْفِرَّ أَحَدٌ حَتَّی يَکُوْنَ آخِرُ عَهْدِهِ بِالْبِيْتِ»
"کوئی شخص کوچ نہ کرے حتیٰ کہ وہ آخری وقت بیت اللہ میں گزار لے.”
(صحیح مسلم، الحج، باب وجوب طواف الوداع وسقوطه عن الحائض، ح: 1327)

یہ فرمان نبی صلی اللہ علیہ وسلم حجۃ الوداع کے موقع پر دیا گیا تھا اور اسی وقت سے طوافِ وداع کی فرضیت کا آغاز ہوا۔

عمرہ کے بعد طوافِ وداع کی حیثیت

کچھ لوگ یہ دلیل دیتے ہیں کہ چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع سے پہلے عمرہ ادا فرمایا تھا، مگر اس وقت طوافِ وداع کرنا ثابت نہیں، اس لیے عمرہ میں طوافِ وداع ضروری نہیں۔ لیکن یہ استدلال درست نہیں، کیونکہ طوافِ وداع اسی وقت فرض کیا گیا جب حجۃ الوداع ہوا، اور اس سے پہلے یہ فرض نہیں تھا۔

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

«اِصْنَعْ فِی عُمْرَتِکَ مَا أَنْتَ صَانِعٌ فِی حَجِّکَ»
"اپنے عمرے میں بھی اسی طرح عمل کرو جیسے تم اپنے حج میں کرتے ہو۔”
(صحیح البخاری، الحج، باب غسل الخلوق ثلاث مرات، ح: 1536)
(صحیح مسلم، الحج، باب ما يباح للمحرم بحج أو عمرة، ح: 2798، 1180، 6)

یہ حکم عام ہے، اگرچہ وقوف عرفہ، منیٰ میں رات گزارنا، اور رمی جیسے اعمال حج کے ساتھ مخصوص ہیں، لیکن دیگر اعمال میں یہ حکم عمرے پر بھی لاگو ہوتا ہے۔

عمرہ کو "حج اصغر” کہنا

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمرہ کو "حج اصغر” کے لقب سے بھی یاد فرمایا ہے، جیسا کہ حضرت عمرو بن حزم رضی اللہ عنہ کی طویل اور مشہور حدیث میں ہے:

(سنن الدارقطني: 2/285)

علماء نے اس حدیث کو قابل قبول قرار دیا ہے، اگرچہ یہ مرسل روایت ہے، لیکن علماء کے قبول کرنے کی وجہ سے یہ حدیث صحیح کے درجہ میں سمجھی جاتی ہے۔

قرآن سے استدلال

ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

﴿وَأَتِمُّوا الحَجَّ وَالعُمرَةَ لِلَّهِ﴾
"اور حج اور عمرہ کو اللہ (کی رضا) کے لیے مکمل کرو۔”
(سورۃ البقرۃ: 196)

اگر طوافِ وداع کو حج کی تکمیل کا حصہ مانا جاتا ہے، تو عمرے کی تکمیل کے لیے بھی یہ ضروری ہوگا۔

اسی طرح جب کوئی شخص مسجد الحرام میں طواف کے ذریعے داخل ہوتا ہے، تو اسے واپس جاتے ہوئے بھی طواف کے ذریعے مسجد سے رخصت ہونا چاہیے۔

حدیثِ ضعیف کا ذکر

ایک اور حدیث میں فرمایا گیا:

«اذا حج الرجلَ أَوِ اعتمر فلا يخرجَ حتی يکون آخر عهده بالبيت»
"جو شخص اس گھر کا حج یا عمرہ کرے، اسے چاہیے کہ وہ واپس جانے سے پہلے آخری وقت بیت اللہ میں گزارے۔”
(سنن ابی داؤد، المناسک، باب فی الوداع، ح: 2002)
(جامع الترمذی، الحج، باب ما جاء من حج أو اعتمر فليکن آخر عهده بالبيت، ح: 946)

لیکن یہ روایت ضعیف ہے کیونکہ اس کی سند میں حجاج بن ارطاۃ موجود ہیں، جو کہ ضعیف راوی ہیں۔ اگر یہ حدیث صحیح ہوتی تو اس مسئلہ میں قطعی نص بن جاتی۔ تاہم ضعیف روایت ہونے کے باعث اس پر عمل نہیں کیا جا سکتا۔

اصولی دلائل اور احتیاط

اوپر بیان کیے گئے اصولی دلائل اس بات کی تائید کرتے ہیں کہ عمرے میں بھی طوافِ وداع واجب ہے۔ اور احتیاط کا تقاضا بھی یہی ہے کہ طوافِ وداع کیا جائے۔

✿ اگر کوئی شخص طوافِ وداع کرے گا، تو کسی بھی فقہی رائے کے مطابق غلطی پر نہیں ہوگا۔

✿ لیکن اگر کوئی طوافِ وداع نہیں کرتا، تو وہ ان اہلِ علم کے نزدیک خطاکار ہوگا جن کے نزدیک یہ واجب ہے۔

✿ لہٰذا طوافِ وداع ہر حال میں صحیح ہے، جب کہ ترک کرنے والا بعض اہلِ علم کے نزدیک قابلِ ملامت ہے۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب
(یہی میری رائے ہے، اور اللہ بہتر جانتا ہے کہ درست بات کیا ہے۔)

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1