سوال:
میں اس سال عاشوراء کا روزہ رکھنا چاہتا ہوں۔ مجھے کچھ لوگوں نے بتایا ہے کہ میں عاشوراء کے ساتھ نو محرم کا روزہ بھی رکھوں۔ تو کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کی رہنمائی ملتی ہے؟
الجواب:
عاشوراء کے ساتھ نو محرم کا روزہ رکھنا نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے صحیح سند کے ساتھ ثابت ہے۔
حدیث:
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں:
"جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یوم عاشوراء کا روزہ خود بھی رکھا اور دوسروں کو بھی اس کا حکم دیا تو صحابہ کرام نے کہا: اے اللہ کے رسول، یہودی اور عیسائی بھی اس دن کی تعظیم کرتے ہیں۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ‘اگر آئندہ سال ہم زندہ رہے تو ان شاء اللہ نو محرم کا روزہ بھی رکھیں گے۔’ سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں کہ آئندہ سال آنے سے پہلے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وفات پا گئے۔”
(صحیح مسلم، حدیث نمبر 1916)
فقہاء کا موقف:
امام شافعی، ان کے اصحاب، امام احمد، امام اسحاق اور دیگر اہل علم کا کہنا ہے:
نو محرم اور یوم عاشوراء (دس محرم) دونوں کا روزہ رکھنا مستحب ہے، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دس محرم کا روزہ رکھا اور نو محرم کا روزہ رکھنے کی نیت کی۔
یوم عاشوراء کے مراتب:
یوم عاشوراء کے روزے کے درجے اور مراتب یہ ہیں:
◄ کم از کم درجہ: صرف دس محرم کا روزہ رکھنا۔
◄ اعلی درجہ: دس محرم کے ساتھ نو محرم کا روزہ بھی رکھنا۔
◄ محرم کے مہینے میں جتنے زیادہ روزے رکھے جائیں، وہ افضل اور بہتر ہیں۔
نو محرم کے روزے کی حکمت:
اگر یہ سوال ہو کہ دس محرم کے ساتھ نو محرم کا روزہ رکھنے میں کیا حکمت ہے؟ تو اس کا جواب یہ ہے:
امام نووی رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں: ہمارے اصحاب اور دوسرے علماء کرام نے نو محرم کے روزے کی حکمت میں متعدد وجوہات بیان کی ہیں:
◄ یہود و نصاریٰ کی مخالفت کرنا: یہودی اور عیسائی صرف دس محرم کا روزہ رکھتے ہیں، لہٰذا نو محرم کا روزہ رکھ کر ان کی مخالفت کی جائے۔ یہ رائے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے بھی منقول ہے۔
◄ اضافی روزہ شامل کرنا: اس کا مقصد یہ ہے کہ یوم عاشوراء کے ساتھ ایک اور روزہ شامل کیا جائے، جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف جمعہ کا روزہ رکھنے سے منع فرمایا ہے۔
◄ دس محرم کے روزے میں احتیاط: چاند کے دنوں میں کمی بیشی کے سبب غلطی کا اندیشہ ہو سکتا ہے، لہٰذا نو محرم کا روزہ رکھ کر یہ احتیاط کی جاتی ہے کہ عدد میں دس محرم پورا ہو جائے۔
ان وجوہات میں سب سے قوی اور صحیح وجہ یہ ہے کہ اس کا مقصد اہل کتاب کی مخالفت ہے۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں:
نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت سی احادیث میں اہل کتاب کی مشابہت اختیار کرنے سے منع فرمایا ہے۔ مثال کے طور پر یوم عاشوراء کے بارے میں فرمایا:
"(اگر میں آئندہ سال زندہ رہا تو نو محرم کا روزہ رکھوں گا)”
(فتاوی الکبری، جلد 6)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تعالی اس حدیث پر تبصرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
"(اگر میں اگلے سال تک زندہ رہا تو نو محرم کا روزہ رکھوں گا)”
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جو نو محرم کے روزے کا ارادہ کیا، اس کے معنی میں یہ احتمال ہے کہ صرف نو محرم پر ہی منحصر نہ رہے، بلکہ اس کے ساتھ دس محرم کا روزہ بھی شامل ہو، یا تو احتیاط کی وجہ سے یا یہود و نصاریٰ کی مخالفت کی وجہ سے۔ اور یہی رائے راجح ہے جو صحیح مسلم کی بعض روایات سے بھی ظاہر ہوتی ہے۔
(فتح الباری، جلد 4، صفحہ 245)