سوال:
کیا ظہر وعصر میں مقتدی فاتحہ کے علاوہ بھی قرآت کر سکتا ہے؟
جواب :
ظہر اور عصر میں مقتدی فاتحہ کے علاوہ بھی قرآت کر سکتا ہے۔
❀ سید نا عمران بن حصین رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں:
إن رسول الله صلى الله عليه وسلم صلى الظهر، فجعل رجل يقرأ خلفه بسبح اسم ربك الأعلى، فلما انصرف قال : أيكم قرأ -أو أيكم القاري – فقال رجل : أنا، فقال : قد ظننت أن بعضكم خالجنيها .
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ظہر کی نماز پڑھا رہے تھے، تو ایک آدمی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے (قدرے بلند آواز سے ) سورت اعلیٰ کی قرآت کرنے لگا، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز سے سلام پھیرا، تو پوچھا: آپ میں سے کون (اونچی) قرآت کر رہا تھا؟ ایک شخص کہنے لگا : میں، فرمایا: میں بھی سمجھ رہا تھا کہ کوئی شخص مجھ سے قرآت کھینچ رہا ہے۔“
(صحیح مسلم : 398)
یہ حدیث دلیل ہے کہ ظہر وعصر میں مقتدی سورت فاتحہ کے علاوہ بھی قرآت کر سکتا ہے، البتہ اونچی قرآت نہیں کرے گا ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابی کو قرآت کرنے سے منع نہیں کیا، بلکہ برقرار رکھا، البتہ اونچی آواز سے قرآت کرنے پر کراہت کا اظہار کیا۔ اہل علم نے اس حدیث کو امام کے پیچھے اونچی قرآت کرنے کے ضمن میں پیش کیا ہے۔
❀ سیدنا جابر بن عبد رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں:
كنا نقرأ فى الظهر والعصر خلف الإمام فى الركعتين الأوليين بفاتحة الكتاب وسورة وفي الأخريين بفاتحة الكتاب .
”ہم (صحابہ ) ظہر اور عصر کی پہلی دو رکعتوں میں امام کے پیچھے سورت فاتحہ اور مزید کوئی سورت پڑھتے تھے اور آخری دو رکعتوں میں صرف سورت فاتحہ پڑھتے تھے۔“
(سنن ابن ماجه : 843 ، وسنده صحيح)
❀ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے اس کی سند کو ”صحیح“ کہا ہے ۔
(كتاب الأحكام الكبير : 479/2)
❀ اسی طرح سیدنا عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما بھی ظہر وعصر میں امام کے پیچھے قرات کرتے تھے۔
(شرح معاني الآثار للطحاوي : 219/1 ، السنن الكبرى للبيهقي : 2942 ، وسنده صحيح)
❀ حافظ بہیقی رحمہ اللہ نے اس کی سند کو ”صحیح“ کہا ہے۔