سوال
کیا ضعیف حدیث قابلِ عمل ہے اور کیا صحاح ستہ کی تمام احادیث قابلِ عمل ہیں؟ اور کیا ان میں کچھ حدیثیں موضوع (من گھڑت) بھی ہیں؟
جواب
الحمد للہ، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
ضعیف حدیث کے قابلِ عمل ہونے کی شرائط
◄ وہ ضعیف حدیث جس کا ضعف بہت ہلکا ہو، جیسے راوی کا حافظہ کمزور ہونا یا ایسی دوسری وجوہات جو کتبِ اصولِ حدیث میں بیان کی گئی ہیں۔
◄ یہ حدیث فضائلِ اعمال سے متعلق ہو۔
✿ یعنی اگر کسی عمل کی فضیلت کے بارے میں صحیح احادیث موجود ہیں تو اسی عمل کے بارے میں اگر کوئی ضعیف حدیث مل جائے جس کا ضعف خفیف ہو تو اسے قبول کیا جا سکتا ہے۔
مثال کے طور پر: نماز کی فضیلت اور اہمیت بہت سی صحیح احادیث سے ثابت ہے۔ اگر اسی باب میں کوئی ضعیف حدیث (خفیف ضعف والی) آئے جس میں نماز کی فضیلت بیان کی گئی ہو تو اسے قبول کیا جائے گا۔ لیکن اس بات کا خیال رہے کہ اسے رسول اللہ ﷺ کی طرف یقین کے ساتھ منسوب نہ کیا جائے۔
احکام اور عقائد میں ضعیف حدیث
◄ اعمال، احکام اور عقائد میں محدثین اور ائمہ فن نے سخت شرائط لگائی ہیں۔
◄ ضعیف حدیث سے احکام ثابت نہیں کیے جاتے۔
صحاح ستہ کی احادیث کی حقیقت
◄ صحیح بخاری اور صحیح مسلم کے علاوہ دیگر کتبِ صحاح ستہ میں کچھ احادیث صحیح ہیں، کچھ ضعیف اور کچھ سخت ضعیف بھی۔
◄ ان کا علم صرف ماہرینِ حدیث کو ہوتا ہے۔
◄ بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ صحاح ستہ کی تمام احادیث صحیح ہیں، لیکن یہ محض لاعلمی ہے۔
◄ حقیقت یہ ہے کہ ان کتب میں ایسی احادیث بھی ہیں جنہیں ضعیف کہا گیا ہے، اور خود مصنفین (ابو داود، ترمذی، نسائی وغیرہ) نے بعض روایات کو ضعیف قرار دیا ہے۔
فالى الله المشتكى.
صحاح ستہ کو "صحاح” کیوں کہا جاتا ہے؟
◄ ان کتب میں زیادہ تر احادیث صحیح اور قابلِ عمل ہیں۔
◄ قاعدہ ہے کہ اکثریت پر حکم لگایا جاتا ہے:
✿ القلیل كالمعدوم → قلیل کو معدوم کے برابر سمجھا جاتا ہے۔
◄ چونکہ ان کتب میں اکثریت صحیح احادیث کی ہے اور امت ان پر عمل کرتی آئی ہے، اس لیے انہیں صحاح ستہ کہا گیا۔
◄ اس کا مطلب یہ نہیں کہ ان میں ضعیف احادیث بالکل نہیں۔
محدثین نے ضعیف احادیث کیوں ذکر کیں؟
(١) اختلافی احادیث کو واضح کرنے کے لیے
◄ بعض اوقات کسی مسئلے میں صحیح حدیث بھی موجود ہوتی ہے اور اس کے خلاف ضعیف حدیث بھی۔
◄ محدثین دونوں کو ذکر کرکے بتاتے ہیں کہ فلاں حدیث ضعیف ہے تاکہ کوئی شخص ضعیف حدیث کو دلیل نہ بنا سکے۔
◄ مثال: فاتحہ خلف الامام کے متعلق صحیح احادیث بھی ہیں اور کچھ ضعیف روایات بھی۔ محدثین دونوں کو ذکر کرکے ضعیف روایت کی حقیقت بیان کرتے ہیں۔
(٢) صحیح حدیث کو تقویت دینے کے لیے
◄ بعض مواقع پر صحیح حدیث کے ساتھ اس کے موافق ضعیف حدیثیں بھی ذکر کی جاتی ہیں تاکہ اصل دلیل کو مزید تقویت حاصل ہو۔
(٣) صحابی کے قول یا فعل کو مضبوط کرنے کے لیے
◄ اگر کسی مسئلے میں صحیح حدیث موجود نہ ہو مگر صحابی کا قول یا عمل موجود ہو، تو محدثین ہلکی ضعیف حدیث بھی ذکر کر دیتے ہیں تاکہ اس قول یا عمل کو تقویت حاصل ہو۔
(٤) عوام کو گمراہی سے بچانے کے لیے
◄ بعض اوقات ایسی ضعیف حدیث ذکر کی جاتی ہے جس کا ضعف شدید ہو۔
◄ مقصد یہ نہیں کہ اسے دلیل بنایا جائے بلکہ یہ کہ عوام کو اس کی حقیقت سے آگاہ کیا جائے تاکہ وہ اسے بیان نہ کریں۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
((من حدث عنى حديثا وهويرى انه كذب فهواحد الكاذبين.))
سنن ترمذي، كتاب العلم، باب ما جاء في من روي حديثا وهو يرى انه كذاب، رقم الحديث: ٢٦٦٢
یعنی: "جو شخص ایسی حدیث بیان کرے جس کے بارے میں جانتا ہو کہ وہ جھوٹی ہے تو وہ بھی دو جھوٹوں میں سے ایک ہے، یعنی گھڑنے والا اور بیان کرنے والا۔”
ضعیف و موضوع احادیث کا نقصان
◄ انہی ضعیف و موضوع احادیث کی وجہ سے مسلمانوں میں بدعات اور شرکیہ اعمال پھیلے۔
◄ اس لیے محدثین نے امت کو آگاہ کیا تاکہ لاعلمی میں گمراہی کا شکار نہ ہوں۔
محدثین بعض اوقات ضعف کی وضاحت کیوں نہیں کرتے؟
◄ بعض راوی اتنے مشہور ہوتے ہیں کہ ان کا ضعف سب پر واضح ہوتا ہے، جیسے جابر جعفی وغیرہ۔
◄ اس لیے محدثین صرف سند ذکر کرتے ہیں تاکہ دیکھنے والا فوراً پہچان لے اور روایت ترک کر دے۔
◄ مقصد یہ بھی ہوتا ہے کہ طالب علم خود تحقیق کرے اور فنِ حدیث میں مہارت پیدا کرے، محض مقلد نہ بنے۔
امام بخاری رحمہ اللہ کی مثال
◄ امام بخاری رحمہ اللہ اپنی صحیح میں ابواب اور تراجم میں ایسی مہارت دکھاتے ہیں کہ شارحین بھی حیران رہ جاتے ہیں۔
◄ وہ اس طرز پر عمل کرتے تھے تاکہ طالب علم کے ذہن میں تیزی آئے اور وہ احادیث سے مسائل کا استنباط کر سکے۔
◄ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نہ صرف مجتہد تھے بلکہ مجتہد گَر بھی تھے (یعنی دوسروں کو بھی مجتہد بناتے تھے)۔
خلاصہ
◄ محدثین نے ضعیف احادیث کو اپنی کتب میں مختلف مقاصد کے تحت ذکر کیا ہے۔
◄ اس پر انہیں الزام نہیں دیا جا سکتا۔
◄ ضعیف حدیث کا استعمال صرف مخصوص شرائط کے ساتھ فضائلِ اعمال میں ہو سکتا ہے، نہ کہ احکام اور عقائد میں۔
◄ صحاح ستہ کی تمام احادیث صحیح نہیں، لیکن ان میں اکثریت صحیح ہے، اسی لیے انہیں "صحاح” کہا جاتا ہے۔
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب