سوال:
کیا شوہر دیدہ عورت کا نکاح ولی کی رضامندی کے بغیر منعقد ہوتا ہے؟
جواب:
عورت کنواری ہو یا شوہر دیدہ، ہر دو صورت میں ولی کی اجازت کے بغیر نکاح منعقد نہ ہوگا۔ البتہ شوہر دیدہ کو بہ نسبت ولی کے اپنے متعلق زیادہ اختیار دیا گیا ہے، یہ مطلب نہیں کہ شوہر دیدہ ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کر سکتی ہے۔
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
الثيب أحق بنفسها من وليها والبكر تستأمر وإذنها سكوتها
شوہر دیدہ اپنے (نکاح کے بارے میں) اپنے ولی سے بڑھ کر حق رکھتی ہے اور کنواری لڑکی سے اجازت طلب کی جائے گی، اس کی خاموشی ہی اس کی اجازت ہے۔
(صحیح مسلم: 1431)
دوسری روایت ہے:
ليس للولي مع الثيب أمر واليتيمة تستأمر وصمتها إقرارها
ولی کو شوہر دیدہ کے (نکاح کے متعلق) کوئی اختیار نہیں، کنواری لڑکی سے مشورہ لیا جائے گا، اس کی خاموشی ہی اقرار ہے۔
❀ امام ابن حبان رحمہ اللہ (354ھ) اس حدیث کا مفہوم بیان کرتے ہیں:
شوہر دیدہ اپنے نفس کی زیادہ حق دار ہے، اس سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد یہ ہے کہ وہ خاوندوں میں سے جس کو چاہے پسند کرے، وہ کہے کہ میں فلاں کو پسند کرتی ہوں اور فلاں کو پسند نہیں کرتی، یہ مراد نہیں کہ عقد نکاح اولیاء کی بجائے ان کے ہاتھ میں ہے۔
(صحیح ابن حبان، تحت الحدیث: 4087)
نیز ليس للولي مع الثيب أمر کا مطلب بیان کرتے ہیں:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان کہ شوہر دیدہ کے ساتھ ولی کو کوئی کام نہیں، ہمارے اس مذہب کی صحت کو روز روشن کی طرح عیاں کرتا ہے کہ مرد کے بارے میں رضا و اختیار تو عورتوں کا حق ہے اور نکاح کرنا اولیاء کا حق ہے، کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عورت کے بیوہ ہونے کی صورت میں ولی کو عورت سے پوچھے بغیر اپنی مرضی سے نکاح کرنے سے منع فرمایا ہے، کیونکہ عورت کو اپنی عصمت میں اختیار اور مرد میں رضامندی ظاہر کرنے کا حق حاصل ہے۔ نیز فرمان نبوی کہ کنواری لڑکی سے مشورہ کیا جائے، اس سے مراد یہ ہے کہ جس مرد سے اس کا نکاح کرنے کا ارادہ ہو، اس کے بارے میں اس کی رضامندی طلب کی جائے، اگر وہ خاموش ہو جائے تو یہ اس کا اقرار ہے، پھر وہ اس لڑکی کے بالغ ہونے تک عقد کا انتظار کرے، کیونکہ اگرچہ اس نے خاموش ہو کر اجازت دے دی ہے، مگر اس نابالغ کے لیے نہ کوئی امر ہے اور نہ اجازت، کیونکہ مشورہ اور اجازت صرف بالغہ کے لیے ہے۔
❀ امام ترمذی رحمہ اللہ (279ھ) اس حدیث کے تحت فرماتے ہیں:
اس حدیث سے بعض لوگوں نے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کے جواز کی دلیل لی ہے، حالانکہ اس حدیث میں ان کی دلیل موجود نہیں، کیونکہ یہ حدیث کئی سندوں کے ساتھ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، ولی کے بغیر کوئی نکاح نہیں (سنن ابن ماجہ: 1880، وسنده حسن والحدیث صحیح)، اسی طرح سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ نے بھی اسی طرح فتویٰ دیا ہے (سنن سعید بن منصور: 553، مصنف ابن ابی شیبہ: 4/2/128، وسنده ضعیف)، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کہ شوہر دیدہ اپنے ولی سے بڑھ کر اپنے نفس کی حق دار ہوتی ہے، اکثر علمائے کرام کے نزدیک اس کا معنی یہ ہے کہ ولی اس کا نکاح اس کی رضامندی اور مشورے کے بغیر نہیں کر سکتا، اگر ولی نے اس کا نکاح بغیر اس کی مرضی کے کر دیا تو وہ نکاح فسخ کر دیا جائے گا، جیسا کہ خنساء بنت خدام رضی اللہ عنہا کی حدیث (صحیح بخاری: 771/1، ح: 5138، سنن ترمذی: 1108) ہے کہ ان کے باپ نے ان کا نکاح کر دیا، وہ شوہر دیدہ تھیں، انہوں نے اس نکاح کو پسند نہ کیا، تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے ولی کا کیا ہوا نکاح رد کر دیا۔
(سنن الترمذی، تحت الحدیث: 1108)
❀ علامہ سندھی حنفی رحمہ اللہ (1138ھ) لکھتے ہیں:
شوہر دیدہ زیادہ حق رکھتی ہے، یہ فرمان نبوی مشارکت کا تقاضا کرتا ہے، یہ اس بات کا فائدہ دیتا ہے کہ نکاح میں عورت کا بھی حق ہے اور اس کے ولی کا بھی حق ہے اور اس کا حق زیادہ تاکید والا ہے، پس (شوہر دیدہ) کو ولی کی وجہ سے مجبور نہیں کیا جائے گا، جبکہ اس کے ولی کو اس شوہر دیدہ کی وجہ سے مجبور کیا جائے گا، چنانچہ اگر وہ (ولی) انکار کر دے تو قاضی اس کا ولی بن کر نکاح کر دے گا، یہ حدیث، لا نكاح إلا بولي والی حدیث کے خلاف نہیں ہے۔
(حاشیة السندی علی سنن النسائی: 84/6)
یہی بات حافظ نووی رحمہ اللہ نے کہی ہے۔
(شرح صحیح مسلم: 455/1)
الأيم کا لفظ اگرچہ اپنے مفہوم کے اعتبار سے عام ہے، لیکن یہاں اس سے مراد شوہر دیدہ ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ البحر کا عطف الأتيم پر ہے، معطوف اور معطوف علیہ کے درمیان مغایرت ہوتی ہے، اس کی تائید صحیح مسلم (1/495، ح: 1421) کے ان الفاظ سے بھی ہوتی ہے:
الشيب أحق بنفسها من وليها
شوہر دیدہ عورت اپنے نفس کی اپنے ولی سے بڑھ کر حق دار ہے۔
❀ حافظ نووی رحمہ اللہ (676ھ) لکھتے ہیں:
قال العلماء الأيم هنا الشيب
علمائے کرام کا کہنا ہے کہ یہاں الیم سے مراد شوہر دیدہ عورت ہے۔
(شرح صحیح مسلم: 455/1)