کیا شوال کے چھ روزے کسی بھی دن رکھے جا سکتے ہیں؟ کیا ہر سال رکھنا فرض ہے؟
سوال:
کیا انسان کے لیے جائز ہے کہ وہ شوال کے روزے اپنی مرضی سے کسی بھی دن رکھے؟ یا ان کے لیے مخصوص ایام مقرر ہیں؟ اور اگر کوئی مسلمان ان دنوں میں روزے رکھ لے، تو کیا پھر ہر سال ان کا رکھنا اس پر فرض ہو جاتا ہے؟
جواب:
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک صحیح حدیث میں اس بات کی وضاحت ملتی ہے:
«مَنْ صَامَ رَمَضَانَ ثُمَّ اَتْبَعَه سِتًّا مِنْ شَوَّالٍ کَانَ کَصِيَامِ الدَّهْرِ»
(صحیح مسلم، الصیام، باب استحباب صوم ستة ایام من شوال، حدیث: ۱۱۶۴)
ترجمہ:
"جو شخص رمضان کے روزے رکھے اور اس کے بعد شوال کے چھ روزے رکھے تو گویا اس نے پورے زمانے کے روزے رکھے۔”
شوال کے روزے رکھنے کا طریقہ:
✿ شوال کے چھ روزوں کے لیے کوئی خاص دن مقرر نہیں ہیں۔
✿ مسلمان کو پورے مہینے میں اختیار حاصل ہے کہ وہ جب چاہے یہ روزے رکھے:
◈ چاہے مہینے کے شروع میں رکھے،
◈ چاہے درمیان میں،
◈ یا آخر میں،
◈ بلکہ اگر چاہے تو یہ روزے مختلف دنوں میں بھی رکھ سکتا ہے۔
✿ اس بارے میں اللہ تعالیٰ نے آسانی دی ہے اور وسیع گنجائش رکھی ہے۔
متواتر روزے رکھنے کا فضیلت:
✿ اگر کوئی مسلمان شوال کی ابتدا میں لگاتار چھ روزے رکھ لے تو یہ عمل زیادہ بہتر ہے۔
✿ اس کی فضیلت یہ ہے کہ یہ نیکی میں جلدی کرنے اور خیر کے کاموں میں پیش قدمی کے زمرے میں آتا ہے۔
کیا ہر سال یہ روزے رکھنا ضروری ہے؟
✿ اگر کوئی مسلمان کبھی یہ روزے رکھ لے اور کبھی چھوڑ دے تو بھی کوئی حرج نہیں۔
✿ کیونکہ یہ روزے نفل (نفلی عبادت) ہیں، واجب یا فرض نہیں۔
ھٰذا ما عندي والله أعلم بالصواب