سوال:
➊ کیا کوئی شخص بطور دوا افیون، چرس، بھنگ، ہیروئن یا شراب استعمال کر سکتا ہے؟
➋ اگر مریض نہ تو کمزور ہو، نہ قریب المرگ ہو، نہ مسافر ہو، نہ نشے کا عادی ہو، تو کیا وہ ان اشیاء کا استعمال بطور دوا کر سکتا ہے؟
➌ اگر مریض کمزور ہو یا قریب المرگ ہو، تو کیا وہ ان اشیاء کو بطور دوا استعمال کر سکتا ہے؟
جواب:
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
(1) ان نشہ آور اشیاء کا استعمال بطور دوا:
ایسا استعمال جائز نہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
«اِنَّهَا لَيْسَتْ بِدَوَاءٍ وَلٰکِنَّهَا دَاءٌ»
(صحيح مسلم، كتاب الأشربة، باب تحريم التداوي بالخمر وبيان أنها ليست بدواء)
"بے شک وہ (شراب) دوا نہیں بلکہ بیماری ہے۔”
لہٰذا افیون، چرس، بھنگ، ہیروئن یا شراب وغیرہ کا استعمال بطور دوا ناجائز اور ممنوع ہے۔
(2) مریض نہ کمزور ہو، نہ قریب المرگ ہو، نہ مسافر ہو، نہ نشے کا عادی ہو:
ایسی حالت میں بھی ان اشیاء کا استعمال بطور دوا جائز نہیں ہے، کیونکہ کوئی اضطراری حالت موجود نہیں۔ عام حالات میں نشہ آور اشیاء کا استعمال اسلامی شریعت میں حرام ہے، چاہے وہ دوا کے طور پر ہی کیوں نہ ہو۔
(3) مریض اگر لاغر ہو یا قریب المرگ ہو:
ایسی صورت میں شریعت نے اضطراری حالت کا لحاظ رکھتے ہوئے رخصت دی ہے۔ لیکن یہ رخصت مخصوص شرائط کے ساتھ مشروط ہے:
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿فَمَنِ ٱضۡطُرَّ غَيۡرَ بَاغٖ وَلَا عَادٖ فَلَآ إِثۡمَ عَلَيۡهِۚ إِنَّ ٱللَّهَ غَفُورٞ رَّحِيمٌ﴾
(البقرة: 173)
"جو شخص مجبور ہو، نہ خواہش رکھنے والا ہو اور نہ حد سے بڑھنے والا ہو تو اس پر کوئی گناہ نہیں، بے شک اللہ بڑا بخشنے والا مہربان ہے۔”
اسی طرح ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿فَمَنِ ٱضۡطُرَّ فِي مَخۡمَصَةٍ غَيۡرَ مُتَجَانِفٖ لِّإِثۡمٖ فَإِنَّ ٱللَّهَ غَفُورٞ رَّحِيمٞ﴾
(المائدة: 3)
"پس جو شخص بھوک کی شدت میں مبتلا ہو بغیر گناہ کی طرف مائل ہونے کے، تو بے شک اللہ بڑا بخشنے والا مہربان ہے۔”
نیز فرمایا:
﴿وَقَدۡ فَصَّلَ لَكُم مَّا حَرَّمَ عَلَيۡكُمۡ إِلَّا مَا ٱضۡطُرِرۡتُمۡ إِلَيۡهِۗ﴾
(الأنعام: 119)
"اللہ نے تمہارے لیے واضح طور پر بیان کر دیا ہے کہ کونسی چیزیں تم پر حرام ہیں، سوائے ان کے جن کی تمہیں مجبوری ہو۔”
ان آیات سے واضح ہوتا ہے کہ اگر واقعی اضطراری حالت ہو، اور کوئی متبادل دوا موجود نہ ہو، تو اس وقت صرف اتنی مقدار استعمال کرنے کی اجازت ہے جس سے جان بچائی جا سکے۔ خواہ مریض لاغر ہو یا قریب المرگ، پھر بھی نیت میں صرف جان بچانا ہو اور گناہ کا ارادہ نہ ہو۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب