کیا سیدنا ابوبکر وسیدنا عمر رضی اللہ عنہما سے رفع الیدین کا ترک ثابت ہے؟
ماخوذ: فتاوی امن پوری از شیخ غلام مصطفی ظہیر امن پوری

سوال :

کیا سیدنا ابوبکر وسیدنا عمر رضی اللہ عنہما سے رفع الیدین کا ترک ثابت ہے؟

جواب :

سیدنا ابوبکر اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہما سے رفع الیدین کا ترک ثابت نہیں۔
❀ سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے منسوب ہے:
صليت مع النبى صلى الله عليه وسلم ومع أبى بكر ومع عمر، فلم يرفعوا أيديهم إلا عند التكبيرة الأولى فى افتتاح الصلاة.
”میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم، ابو بکر اور عمر رضی اللہ عنہما کے ساتھ نماز پڑھی ، انہوں نے صرف نماز کے شروع میں تکبیر اولیٰ کے وقت رفع الیدین کیا۔“
(سنن الدارقطني : 295/1، ح : 1120، واللفظ له، مسند أبى يعلى : 5039)
روایت سخت ”ضعیف“ ہے۔
① محمد بن جابر یمامی جمہور محدثین کے نزدیک ”ضعیف“ ہے۔
❀ حافظ میزی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
هو ضعيف عند الجمهور.
”یہ جمہور کے نزدیک ضعیف ہے۔“
(مجمع الزوائد : 191/5)
❀ حافظ عراقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
ضعفه الجمهور.
”جمہور نے ضعیف کہا ہے۔“
( مَحَجَّة القُرَب، ص 185)
اسے امام احمد بن حنبل ، امام بخاری ، امام یحیی بن معین ، امام فلاس ، امام نسائی ، امام ترمذی، امام جوزجانی ، امام دار قطنی و غیرہم رحمہم اللہ نے مجروح و ”ضعیف“ کہا ہے۔
❀ امام دار قطنی رحمہ اللہ اس حدیث کو ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں :
تفرد به محمد بن جابر اليمامي وكان ضعيفا.
”اسے بیان کرنے میں محمد بن جابر یمامی متفرد ہے اور وہ ضعیف تھا۔“
(سنن الدارقطني : 295/1)
❀ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
هذا ابن جابر إيش حديثه؟ هذا حديث منكر، أنكره جدا.
”ابن جابر کی حدیث کیا ہے؟ یہ حدیث منکر ہے، میں اسے سخت منکر سمجھتا ہوں۔“
(العِلل ومعرفة الرّجال : 117/1)
❀ امام عقیلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
لا يتابع محمد بن جابر على هذا الحديث ولا على عامة حديثه.
”محمد بن جابر کی نہ اس حدیث میں متابعت کی گئی ہے اور نہ دیگر احادیث پر ۔“
(الضعفاء الكبير : 42/4)
❀ امام حاکم رحمہ اللہ نے اس کی سند کو ”ضعیف“ کہا ہے۔
(معرفة السنن والآثار للبيهقي : 424/2)
❀ حافظ ابن الجوزی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
هذا حديث لا يصح عن رسول الله صلى الله عليه وسلم.
”یہ حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ۔“
(الموضوعات : 96/2)
❀ امام ابو حاتم رازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
حديثه عن حماد ، فيه اضطراب.
”اس کی حدیث حماد بن ابی سلیمان سے مضطرب ہوتی ہے۔“
(الجرح والتعديل لابن أبي حاتم : 219/7)
اس نے مذکورہ روایت بھی اپنے استاذ حماد سے بیان کی ہے، لہذا یہ جرح مفسر ہے۔
② اگر یہ حدیث ”صحیح“ ہے، تو قنوت وتر اور عیدین میں رفع الیدین کیوں؟
③ یہ روایت ضعیف ہونے کے ساتھ ساتھ عام ہے، جبکہ رکوع جاتے اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت رفع الیدین کے ثبوت والی احادیث خاص ہیں، لہذا خاص کو عام پر مقدم کیا جائے گا۔
④ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے رفع الیدین کرنا” صحیح“ سند سے ثابت ہے۔
(السنن الكبرى للبيهقي : 73/2)

تنبیہ :

امام ابراہیم نخعی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں:
كان عبد الله لا يرفع يديه فى شيء من الصلاة إلا فى الافتتاح.
”سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ صرف نماز کے آغاز ( تکبیر تحریمہ ) میں رفع الیدین کرتے تھے۔“
(مصنف ابن أبي شيبة : 236/1 ، شرح معاني الآثار للطحاوي : 227/1)
سند ”ضعیف“ ہے۔
❀ امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
لا يثبت
” یہ ثابت نہیں ہے۔“
(السنن الكبرى للبيهقي : 81/2)
امام نخعی ”مدلس“ ہیں ۔ (طبقات المدلسین :28) سماع کی صراحت نہیں کی۔ نیز یہ سند سخت ”منقطع“ ہے، کیونکہ امام ابراہیم نخعی رحمہ اللہ کی سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے ملاقات ثابت نہیں۔ ابراہیم نخعی رحمہ اللہ کی پیدائش سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد ہوئی۔
❀ امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
أصل قوله إن إبراهيم لو روى عن على وعبد الله لم يقبل منه، لأنه لم يلق واحدا منهما.
”ہماری دلیل یہ ہے کہ ابراہیم اگر سیدنا علی وسیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما سے بیان کریں، تو قبول نہیں ہے، کیونکہ ان کی دونوں صحابہ میں سے کسی سے بھی ملاقات نہیں ہے ۔“
( إختلاف الحديث : 635/8)
❀ حافظ ابن ملقن رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
إبراهيم النخعي لم ير ابن مسعود، والحديث منقطع.
”ابراہیم نخعی رحمہ اللہ نے سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کونہیں دیکھا، یہ حدیث منقطع ہے.“
(البدر المنير : 478/3)
❀ حافظ بیہقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
رواية إبراهيم عن عبد الله منقطعة، لا شك فيها
”ابراہیم نخعی رحمہ اللہ کی سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت منقطع ہے ۔ اس میں کوئی شک نہیں ۔“
(السنن الکبری : 76/8)
بلکہ امام ابراہیم نخعی رحمہ اللہ نے کسی بھی صحابی سے سماع نہیں کیا، حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (التقریب : 270) نے ان کو طبقہ خامسہ میں ذکر کیا ہے۔ اس طبقہ کے راویوں کا کسی بھی صحابی سے سماع ثابت نہیں ہوتا۔

فائدہ :

اعمش رحمہ اللہ کہتے ہیں :
قلت لإبراهيم : إذا حدثت فأسند، قال : إذا قلت لك : قال عبد الله، فلم أقل ذلك حتى حدثنيه عن عبد الله غير واحد، وإذا قلت : حدثني فلان، عن عبد الله، فهو الذى حدثني.
”میں نے ابراہیم نخعی رحمہ اللہ سے کہا : جب آپ ( مجھے ) حدیث بیان کریں، تو سند بھی ذکر کر دیا کریں، تو ابراہیم رحمہ اللہ نے فرمایا : جب میں بیان کروں کہ عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا تو یہ میں اس وقت کہتا ہوں، جب کئی ایک راویوں نے مجھے عبد اللہ بن مسعود سے بیان کیا ہو ۔ اور جب میں کہوں کہ مجھے فلاں نے عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے بیان کیا ہے، تو مجھے اسی نے بیان کیا ہوتا ہے۔“
(شرح مشكل الآثار للطحاوي : 519/14)
سند ضعیف ہے۔ امام طحاوی رحمہ اللہ نے اس سند میں شک کا اظہار کیا ہے۔
اس قول کو صحیح بھی مان لیا جائے ،تب بھی اس سے مراسیل ابراہیم نخعی کا صحیح ہونا ثابت نہیں ہوتا، کیونکہ ابراہیم نخعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ جب میں ( قال عبد اللہ ) کہوں، تو مجھے کئی ایک راویوں نے بیان کیا ہوتا ہے۔ اب یہ کئی ایک راوی نا معلوم ہیں ۔ جب تک ان کی صراحت نہ ہو جائے ، صحیح کا حکم نہیں لگایا جاسکتا۔
❀ امام حاکم رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
هذا هو المحفوظ، وإبراهيم النخعي لم ير ابن مسعود، والحديث منقطع، والعجب من محمد بن جابر أنه لم يرض بأن وصل هذا المنقطع، حتى زاد أيضا فى متنه السند؛ فأسنده إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، ثم لم يقنعه ذلك إلى أن وصله بذكر أبى بكر وعمر رضي الله عنهما.
”یہ روایت ہی محفوظ ہے، (اس میں بھی ) ابراہیم نخعی نے سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کو نہیں دیکھا ، لہذا حدیث منقطع ہے۔ محمد بن جابر یمامی پر تعجب ہے وہ اس منقطع روایت کو موصول بیان کرنے پر راضی نہ ہوا، بلکہ متن میں زیادتی کر کے اسے مسند بیان کر دیا اور اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب کر دیا، پھر اس پر بھی اکتفا نہ کیا ، بلکہ اس میں سیدنا ابو بکر اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہما کا ذکر بھی کر دیا ۔“
(الخلافيات للبيهقي : 365/2)

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے