سوال :
کیا سود کھانے والے کی نماز ہو جاتی ہے؟ اس کے ساتھ دینی اعتبار سے کیسے تعلقات رکھنے چاہییں؟
جواب :
سود کی حرمت کتاب و سنت کی نصوص سے بالکل واضح ہے، حرام مال استعمال کرنے سے عبادات پر اثر پڑتا ہے۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”اے لوگو! بلاشبہ اللہ تبارک و تعالیٰ پاک ہے اور پاک چیز ہی قبول کرتا ہے، بے شک اللہ تعالیٰ نے ایمان والوں کو وہی حکم دیا ہے، جو اس نے رسولوں کو دیا ہے، فرمایا: ”اے رسولو! پاکیزہ چیزوں میں سے کھاؤ اور عمل صالح کرو، بے شک میں تمھارے عملوں کو جاننے والا ہوں۔“ (المؤمنون: 51) اور فرمایا: ”اے ایمان والو! ان پاکیزہ چیزوں میں سے کھاؤ جو ہم نے تمھیں عطا کیں۔“ (البقرة: 172) پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایک آدمی لمبا سفر کرتا ہے، اس کے بال پراگندہ ہیں اور وہ غبار آلود ہے، اپنے دونوں ہاتھ آسمان کی طرف دراز کر کے کہتا ہے: ”اے میرے رب!“ حالانکہ اس کا کھانا حرام، اس کا پینا حرام اور وہ حرام سے پلتا ہے، تو اس کی دعا کہاں قبول ہو؟“
(مسلم کتاب الزكاة باب قبول الصدقة من الكسب الطيب وتربيتها ح 1015)
علامہ شرف الدین حسین بن عبد اللہ الطیبی شارح مشکوۃ رقمطراز ہیں: ”اس حدیث میں آدمی سے مراد حاجی ہے جس پر سفر کے نشانات ہیں اور اس نے بڑی مشقت اٹھائی ہے، اس کے بال پراگندہ ہو گئے اور وہ غبار آلود ہو گیا ہے اور اس حالت میں وہ دعا کرنے لگا ہے اور اللہ تعالیٰ کے ہاں یہ حالت قبولیت دعا میں سے ہے، لیکن اس کی دعا قبول نہیں کی جاتی اور اس کی مشقت و پراگندگی کی پروا نہیں کی جاتی، اس لیے کہ وہ حرام کے ساتھ اختلاط کرنے والا اور حرام جگہوں پر مال خرچ کرنے والا ہے۔ جب حاجی جو اللہ کی راہ میں ہوتا ہے، اس کا یہ حال ہے تو اس کے علاوہ لوگوں کا کیا حال ہو گا؟“
(شرح الطیبی 2096/7-2097)
اس صحیح حدیث سے پتا چلا کہ حرام مال دعا و عبادت کے قبول ہونے میں رکاوٹ بنتا ہے، لہذا جو لوگ سود کھاتے ہیں، انھیں اپنے اس عمل پر غور کرنا چاہیے اور فی الفور سودی کام سے توبہ کرنی چاہیے، ورنہ عبادات ضائع ہو جائیں گی۔ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے ایک روایت یوں مروی ہے: ”جس آدمی نے 10 درہم کا کپڑا خریدا اور ان میں سے ایک درہم حرام کا ہے تو اس کی نماز اتنی دیر تک اللہ تعالیٰ قبول نہیں کرتا جب تک وہ کپڑا اس کے اوپر رہتا ہے۔“ (مسند احمد 98/2 ح 5732) لیکن اس کی سند بقیہ بن ولید کی تدلیس، عثمان بن زفر کی جہالت اور ہاشم کے مجہول ہونے کی وجہ سے قابل استدلال نہیں۔
رہا سود خور لوگوں سے تعلقات کا معاملہ تو یاد رہے کہ سودی مال والے آدمی کی دعوت قبول نہیں کرنی چاہیے اور نہ اس کے مال سے کچھ کھانا چاہیے۔ سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لا تصاحب إلا مؤمنا ولا يأكل طعامك إلا تقي
(ترمذی کتاب الزهد باب ما جاء في صحبة المؤمن ح 2395)
”تو صرف مومن آدمی کا ساتھی بن اور تیرا کھانا متقی ہی کھائے۔“
معلوم ہوا کہ دوستی لگانے کے لیے صاحب ایمان کا انتخاب ہونا چاہیے اور کھانے کی دعوت میں بھی متقی و پرہیزگار شخص کو بلانا چاہیے اور جس کا کھانا یا دعوت حرام کی ہو، مومن کو اس میں شرکت نہیں کرنی چاہیے۔ البتہ دین کی باتیں انھیں سمجھانی چاہییں۔