کیا سفیان ثوری کی عن والی روایت مقبول ہے؟ تفصیلی دلائل
ماخوذ: فتاویٰ علمیہ (توضیح الاحکام)، جلد 2، صفحہ 312

سوال

سفیان ثوری کی تدلیس (عن والی روایت) مقبول ہے یا غیر مقبول؟ دلیل سے جواب دیں۔

جواب

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

امام سفیان ثوری رحمہ اللہ کے بارے میں درج ذیل تفصیلی تحقیق پیش کی جاتی ہے:

(۱) سفیان ثوری رحمہ اللہ کا ثقہ و ثبت ہونا

◈ امام سفیان ثوری رحمہ اللہ بالاتفاق ثقہ اور ثبت ہیں۔
◈ ان کی توثیق امام احمد بن حنبل، عجلی، دارقطنی، ابن حبان وغیرہم نے کی ہے۔
◈ امام نسائی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
> ’’وہ اس سے بلند ہیں کہ انہیں ثقہ کہا جائے، وہ میرے خیال میں متقین کے اماموں میں سے ایک امام تھے۔‘‘
◈ امام شعبہ رحمہ اللہ نے ان کو "امیر المومنین فی الحدیث” قرار دیا۔
تہذیب الکمال للمزی (جلد 7، صفحہ 360)
◈ ان کی روایت کردہ احادیث کتب ستہ اور دیگر عام کتب حدیث میں موجود ہیں۔

(۲) سفیان ثوری رحمہ اللہ کا تدلیس کرنا

◈ اس بات پر اجماع ہے کہ سفیان ثوری رحمہ اللہ تدلیس کیا کرتے تھے۔

مختلف محدثین کے اقوال:

ہشیم بن بشیر (متوفی 183ھ) نے عبداللہ بن المبارک سے کہا:
> ’’ان کبیریک قد دلّسا: الاعمش و سفیان‘‘
> یعنی تیرے دونوں بزرگ، اعمش اور سفیان (ثوری)، تدلیس کیا کرتے تھے۔
الکامل لابن عدی (جلد 7، صفحہ 2596)، العلل الکبیر للترمذی (جلد 2، صفحہ 966)، علمی مقالات (جلد 1، صفحہ 251) (تمام اسناد صحیح)

یحییٰ بن معین نے کہا:
> ’’وکان یدلس‘‘
> یعنی سفیان ثوری تدلیس کیا کرتے تھے۔
الجرح و التعدیل (جلد 4، صفحہ 325)، الکفایۃ للخطیب (صفحہ 361) (اسناد صحیح)

سفیان ثوری کے شاگرد ابو عاصم النبیل نے فرمایا:
> ’’نری ان سفیان الثوری انما دلسه عن ابی حنیفة‘‘
سنن الدارقطنی (جلد 3، صفحہ 201، حدیث 3423)

امام بخاری فرماتے ہیں:
> ’’اعلم الناس بالثوری یحیی بن سعید، لانه عرف صحیح حدیثه من تدلیسه‘‘
> یعنی سفیان کے بارے میں سب سے زیادہ جاننے والے یحییٰ بن سعید القطان تھے کیونکہ وہ ان کی تدلیس میں سے صحیح احادیث کو پہچانتے تھے۔
الکامل لابن عدی (جلد 1، صفحہ 111) (سند صحیح)

◈ یحییٰ القطان کی سفیان ثوری سے روایت کو سماع پر محمول کیا جاتا ہے۔
نور العینین (طبع دوم، صفحہ 124)

امام علی بن المدینی کا قول:
> ’’والناس یحتاجون فی حدیث سفیان الی یحیی القطان، الحال الاخبار یعنی علی: ان سفیان کان یدلس و ان یحیی القطان کان یوقفه علی ما سمع مما لم یسمع‘‘
> یعنی لوگ احادیث سفیان کے بارے میں یحییٰ القطان کے محتاج تھے، کیونکہ وہ سفیان کی مصرح بالسماع اور غیر مصرح روایتوں کے فرق کو واضح کرتے تھے۔
الکفایہ (صفحہ 362) (سند صحیح)

✅ اس تمام تفصیل سے واضح ہوتا ہے کہ سفیان ثوری کا مدلس ہونا ایک اجماعی مسئلہ ہے۔

تنبیہ اول:

حافظ سیوطی نے "تدریب الراوی” میں لکھا:
> ’’روی البیهقی فی المدخل عن محمد بن رافع قال: قلت لابی عامر: کان الثوری یدلس؟ قال: لا………الخ‘‘
> یعنی ابو عامر کے بقول سفیان ثوری تدلیس نہیں کرتے تھے۔

لیکن یہ روایت کئی وجوہات کی بنا پر مردود ہے:
➊ امام بیہقی کی کتاب المدخل میں یہ حوالہ موجود نہیں۔
➋ سیوطی نے بیہقی سے محمد بن رافع تک سند بیان نہیں کی۔
➌ یہ واضح نہیں کہ سیوطی نے عبارت براہ راست المدخل سے نقل کی ہے یا کسی اور ذریعے سے۔
محدثین کے متواتر اقوال کے مقابلے میں یہ روایت شاذ ہے، اس لیے قابل قبول نہیں۔

تنبیہ دوم:

راقم الحروف نے نور العینین میں سفیان ثوری کے متعلق لکھا تھا:
> ’’حافظ العلائی کی کلدی نے حافظ ابن حجر سے پہلے ان کو طبقہ ثانیہ میں ذکر کیا ہے۔‘‘
(طبع قدیم صفحہ 102، طبع جدید صفحہ 127)

یہ بیان غلط ہے جس سے میں رجوع کرتا ہوں۔

🔄 درست حوالہ:
> ’’امام حاکم نے حافظ ابن حجر سے پہلے ان کو طبقہ ثانیہ (جنس ثالث) میں ذکر کیا ہے۔‘‘
جامع التحصیل صفحہ 99، معرفۃ علوم الحدیث للحاکم صفحہ 106

📌 اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ امام حاکم کا قول ہے، جو غلطی سے حافظ علائی کی طرف منسوب ہوگیا تھا۔
اسی قول سے یہ مؤقف تقویت پاتا ہے کہ سفیان ثوری کا شمار طبقہ ثالثہ میں ہونا چاہیے۔

اقوال فقہائے احناف:

عینی حنفی لکھتے ہیں:
> ’’وسفیان من المدلسین و المدلس لا یحتج بعنعنته الا ان یثبت سماعه من طریق آخر‘‘
> یعنی سفیان مدلسین میں سے ہیں اور ان کی عن والی روایت اس وقت تک حجت نہیں جب تک دوسری سند سے سماع ثابت نہ ہو۔
عمدۃ القاری (جلد 3، صفحہ 112، باب الوضوء من غیر حدث)

ضعیف راویوں سے تدلیس:

◈ سفیان ثوری ضعیف راویوں سے بھی تدلیس کرتے تھے۔
میزان الاعتدال (جلد 2، صفحہ 169، ترجمہ 3322)

اصولی قاعدہ:

ابو بکر الصیر اپنی کتاب "الدلائل” میں لکھتے ہیں:
> ’’کل من ظهر تدلیسه عن غیر الثقات لم یقبل خبره حتی یقول حدثنی او سمعت‘‘
> یعنی وہ راوی جو غیر ثقہ سے تدلیس کرے، اس کی روایت تب تک قبول نہیں جب تک وہ "حدثنی” یا "سمعت” کے الفاظ نہ کہے۔
شرح الفیۃ العراقی / التبصرۃ والتذکرۃ (جلد 1، صفحہ 184، 185)، علمی مقالات (جلد 1، صفحہ 251)

امام حاکم اور امام ابن حبان کی تصریحات:

◈ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ سفیان ثوری رحمہ اللہ طبقہ ثالثہ کے مدلس ہیں۔
◈ امام حاکم کی تائید حافظ ابن حبان کی تحریر سے بھی ہوتی ہے:
> ’’واما المدلسون الذین هم ثقات و عدول فانا لا تحتج باخبارهم الا ما بینوا السماع فیما رووا مثل الثوری والاعمش وابی اسحاق و اضرابهم‘‘
> یعنی جو مدلس ثقہ و عادل ہوں (جیسے سفیان ثوری، اعمش، ابو اسحاق وغیرہم)، ان کی صرف انہی روایات سے حجت پکڑی جاتی ہے جن میں وہ سماع کی تصریح کرتے ہیں۔
الاحسان (جلد 1، صفحہ 92)، نسخہ محققہ (جلد 1، صفحہ 161)

نتیجہ:

سفیان ثوری کی عن والی روایت اس وقت مقبول ہے جب اس میں سماع کی تصریح ہو۔ بصورت دیگر، ان کی عن والی روایت غیر مقبول ہے۔

تفصیلی مطالعہ کے لیے: نور العینین، علمی مقالات (جلد 1، صفحہ 251)

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1