سوال:
کیا سبزیوں پر عشر ہے؟
جواب:
اہل علم کا اجماع ہے کہ سبزیوں پر زکوٰۃ (عشر) واجب نہیں۔
❀ امام ابو عبید قاسم بن سلام رحمہ اللہ (224ھ) فرماتے ہیں:
العلماء اليوم مجمعون من أهل العراق، والحجاز، والشام على أن لا صدقة في قليل الخضر ولا في كثيرها، إذا كانت في أرض العشر
عراق، حجاز اور شام کے اہل علم اس بات پر متفق ہیں کہ سبزیوں پر، خواہ کم ہوں یا زیادہ، اگر وہ عشر والی زمین میں ہوں، تو کوئی زکوٰۃ نہیں۔
(کتاب الأموال: 502)
سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
ليس فيما دون خمسة أوسق صدقة
پانچ وسق سے کم میں زکوٰۃ نہیں۔
(صحیح البخاری: 1484؛ صحیح مسلم: 979)
❀ حافظ خطابی رحمہ اللہ (388ھ) اس حدیث کے فوائد میں لکھتے ہیں:
قد يستدل بهذا الحديث من يرى أن الصدقة لا تجب في شيء من الخضراوات، لأنه زعم أنها لا تواسق، ودليل الخبر أن الزكاة إنما تجب فيما يوسق ويكال، من الحبوب والشمار، دون ما لا يكال، من الفواكه والخضر ونحوها، وعليه عامة أهل العلم، إلا أن أبا حنيفة رأى الصدقة فيها
اس حدیث سے وہ اہل علم استدلال کرتے ہیں جو کہتے ہیں کہ سبزیوں پر زکوٰۃ واجب نہیں، کیونکہ سبزیوں کو ماپا نہیں جاتا، جبکہ حدیث میں زکوٰۃ اسی چیز پر مقرر کی گئی جو ماپا جا سکے، جیسے دانے اور غلہ۔ پھلوں، سبزیوں وغیرہ پر زکوٰۃ نہیں، جو ماپے نہیں جاتے۔ اکثر اہل علم اسی پر ہیں، سوائے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے، جو سبزیوں پر بھی زکوٰۃ واجب سمجھتے ہیں۔
(معالم السنن: 2/14)
❀ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (852ھ) لکھتے ہیں:
امام ابن منذر رحمہ اللہ نے اجماع نقل کیا کہ پانچ وسق سے کم زمینی پیداوار پر عشر نہیں، سوائے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے۔ وہ کہتے ہیں کہ ہر اس چیز پر عشر ہوگا جس کی کاشت کا مقصد زمین کی نمو ہو، سوائے لکڑی، بانس، بھنگ اور اس درخت کے جس پر پھل نہ لگتا ہو۔
(فتح الباری: 3/350)
یہ کہنا کہ یہ حدیث صرف تجارت کے بارے میں ہے، درست نہیں۔ اس سے مراد یہ ہے کہ زکوٰۃ والی پیداوار کا نصاب کم از کم پانچ وسق ہے۔
عظیم تابعی میمون بن مہران رحمہ اللہ سے سبزیوں پر زکوٰۃ کے بارے میں پوچھا گیا، تو انہوں نے فرمایا:
ليس فيها زكاة، حتى تباع، فإذا بيعت وبلغت مائتي درهم، فإن فيها خمسة دراهم
سبزیوں پر کوئی زکوٰۃ نہیں، حتیٰ کہ انہیں بیچ دیا جائے۔ جب بیچا جائے اور ان کی قیمت دو سو درہم (نصاب) تک پہنچ جائے، تو اس میں پانچ درہم زکوٰۃ ہوگی۔
(کتاب الأموال: 502، وسندہ حسن)
زمین کی ہر پیداوار پر زکوٰۃ واجب قرار دینے والوں کی دلیل کا جائزہ:
وہ کہتے ہیں:
فيما سقت السماء العشر، وفيما سقي بنضح، أو غرب، نصف العشر، في قليله وكثيره
جو زمین بارش سے سیراب ہو، اس کی پیداوار میں دسواں حصہ زکوٰۃ ہوگی، اور جسے جانوروں یا کنویں سے سیراب کیا جائے، اس کی پیداوار میں، خواہ تھوڑی ہو یا زیادہ، بیسواں حصہ زکوٰۃ ہوگی۔
(التحقیق فی المسائل لابن الجوزی: 962؛ نصب الرایہ للزیلعی: 2/385)
یہ روایت چھوٹی ہے اور اس کی سند ضعیف ہے:
1. اس میں ابو معطیع سخت ضعیف راوی ہے، اس کی توثیق ثابت نہیں۔
2. اس کا استاذ ابان بن ابی عیاش بھی بالاتفاق محدثین کے نزدیک ضعیف اور متروک ہے۔
❀ حافظ ابن الجوزی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
هذا إسناد لا يساوي شيئا
یہ سند کسی کام کی نہیں۔
(التحقیق فی مسائل الخلاف: 962)
بعض نے لکھا کہ امام قتادہ نے مسند بزار میں سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے اس کی متابعت کی، لیکن حقیقت میں ایسی کوئی متابعت موجود نہیں۔
اس میں ”رجل“ کا واسطہ ہے، جو مہم و مجہول ہے۔
ثابت ہوا کہ زمین کی ہر پیداوار پر، خواہ کم ہو یا زیادہ، زکوٰۃ واجب کہنا بے دلیل اور بے ثبوت ہے۔
❀ لحکم بن عتیبہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
فيما حفظنا عن أصحابنا أنهم كانوا يقولون: وليس في شيء من هذا شيء إلا في الحنطة والشعير والتمر والربيب
ہم نے اپنے احباب سے یاد کیا کہ وہ زمین کی پیداوار میں سے کسی پر زکوٰۃ واجب نہیں کہتے تھے، سوائے گندم، جو، کھجور اور منقیٰ کے۔
(مصنف ابن ابی شیبہ: 3/139، وسندہ صحیح)