کیا زکوٰۃ مسجدوں کی تعمیر پر خرچ کی جا سکتی ہے؟
ماخوذ : فتاویٰ ارکان اسلام

سوال

کیا مسجدوں کی تعمیر میں زکوٰۃ صرف کرنا بھی ﴿وَفِیْ سَبِيْلِ اللّٰهِ﴾ کی مد میں داخل ہو سکتا ہے؟

جواب

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

مسجدوں کی تعمیر کو ﴿وَفِیْ سَبِيْلِ اللّٰهِ﴾ کے مصارف زکوٰۃ میں شامل نہیں کیا جا سکتا کیونکہ مفسرین نے ﴿فِیْ سَبِيْلِ اللّٰهِ﴾ کی تفسیر صرف جہاد سے کی ہے۔ اگر ہم یہ سمجھیں کہ ﴿فِیْ سَبِيْلِ اللّٰهِ﴾ سے مراد ہر نیکی کا کام ہے تو پھر ﴿اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلْفُقَرَاءِ﴾ میں حصر (یعنی خصوصیت کا بیان) کا کوئی مقصد نہیں رہتا۔ معروف اصول یہ ہے کہ حصر سے مراد یہ ہوتی ہے کہ ذکر کردہ چیز کے علاوہ باقی سب چیزیں خارج ہیں۔

اسی بنیاد پر اگر ہم یہ رائے اختیار کریں کہ ﴿وَفِیْ سَبِيْلِ اللّٰهِ﴾ میں ہر نیکی کا کام شامل ہے تو پھر آیت کو ﴿اِنَّمَا﴾ (جس کا مقصد حصر ہے) سے شروع کرنے کا کوئی فائدہ باقی نہیں رہتا۔

علاوہ ازیں، اگر مسجدوں کی تعمیر اور دیگر نیک کاموں میں زکوٰۃ کے استعمال کو جائز مان لیا جائے تو اس کا لازمی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ لوگ ان کاموں میں زکوٰۃ کی رقم خرچ کر کے محتاج اور فقراء کی مدد کرنا چھوڑ دیں گے۔ چونکہ عام طور پر لوگوں میں بخل کا رجحان پایا جاتا ہے، اگر وہ دیکھیں کہ مسجدوں کی تعمیر اور دیگر کاموں میں بھی زکوٰۃ خرچ کی جا سکتی ہے تو وہ اپنی زکوٰۃ انہی کاموں میں لگا دیں گے اور فقراء اور مساکین مستقل محتاجی کا شکار رہ جائیں گے۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1