کیا رکوع جاتے اور رکوع سے اٹھتے رفع الیدین کی احادیث متواتر ہیں؟
ماخوذ: فتاوی امن پوری از شیخ غلام مصطفی ظہیر امن پوری

سوال:

کیا رکوع جاتے اور رکوع سے اٹھتے رفع الیدین کی احادیث متواتر ہیں؟

جواب:

رفع الیدین کی احادیث کے متعلق ائمہ اسلام نے جو تصریحات کی ہیں، ان کو دیکھنے سے یہ بات مکمل طور پر کھل جاتی ہے کہ رفع الیدین کی روایات متواتر منقول ہیں۔
❀ علامہ ابن حزم رحمہ اللہ (456ھ) فرماتے ہیں:
”یہ احادیث صریح اور متواتر ہیں، جو سیدنا عبداللہ بن عمر، سیدنا ابو حمید ساعدی، سیدنا ابو قتادہ، سیدنا وائل بن حجر، سیدنا مالک بن حویرث، سیدنا انس بن مالک اور دیگر صحابہ کرام سے مروی ہیں۔ علم یقینی کا فائدہ دیتی ہیں۔“
(المحلى بالآثار: 9/3)
❀ حافظ ذہبی رحمہ اللہ (748ھ) نے رفع الیدین کو ”سنت متواتر“ کہا ہے۔
(سير أعلام النبلاء: 293/5)
❀ علامہ ابن ابی العز رحمہ اللہ (792ھ) لکھتے ہیں:
أحاديث الرفع تكاد تبلغ التواتر
”رفع الیدین کی احادیث متواتر ہیں۔“
(التنبيه على مشكلات الهداية: 567/2)
❀ علامہ زرکشی رحمہ اللہ (794ھ) لکھتے ہیں:
”یہ دعویٰ محل نظر ہے کہ تکبیر تحریمہ کے علاوہ رفع الیدین کی احادیث درجہ تواتر تک نہیں پہنچیں، جزء رفع الیدین میں امام بخاری کے کلام سے مترشح ہوتا ہے کہ یہ احادیث متواتر ہیں۔“
(المعتبر في تخريج أحاديث المنهاج والمختصر: 136)
❀ علامہ فیروز آبادی رحمہ اللہ (816ھ) فرماتے ہیں:
”ان تین مقامات پر رفع الیدین ثابت ہے، راویوں کی کثرت کی بنا پر درجہ تواتر تک پہنچتا ہے۔ اس بارے میں چار سو احادیث اور آثار ثابت ہیں۔ اسے عشرہ مبشرہ نے بھی روایت کیا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ رفع الیدین کرتے رہے، یہاں تک کہ اس جہان سے رحلت فرما گئے۔ اس کے برخلاف کچھ ثابت نہیں۔“
(سفر السعادة، ص 34)
❀ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (852ھ) فرماتے ہیں:
”حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ کا یہ دعویٰ محل نظر ہے کہ نماز کے شروع والا رفع الیدین متواتر ہے، رکوع والا متواتر نہیں، سوائے کچھ راویوں کے ہر راوی جس نے پہلی رفع الیدین بیان کی، اس نے دوسری رفع الیدین بھی بیان کی ہے۔“
(موافقة الخُبر الخَبَر: 409/1)
❀ علامہ سیوطی رحمہ اللہ (911ھ) نے بھی رفع الیدین کو متواتر قرار دیا ہے۔
(الأزهار المتناثرة في الأحاديث المتواترة، ص 16)
❀ علامہ انور شاہ کاشمیری صاحب رحمہ اللہ (1353ھ) لکھتے ہیں:
إن الرفع متواتر إسنادا وعملا، ولا يشك فيه، ولم ينسخ ولا حرف منه
”رفع الیدین سند اور عمل کے لحاظ سے متواتر ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کیا جا سکتا، نیز اس میں سے ایک حرف بھی منسوخ نہیں ہوا۔“
(نيل الفرقدين في رفع اليدين، ص 22)

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے