سوال
کیا یہ کہنا درست ہے کہ فلاں حدیث سنداً تو صحیح ہے مگر متناً ضعیف ہے؟ یعنی روایتاً صحیح ہے مگر درایتاً ضعیف ہے؟ علم الحدیث کی یہ دو اقسام:
(1) علم الروایہ
(2) علم الدرآیہ
کیا محدثین کے ہاں معروف ہیں یا موجودہ دور کی ایجاد ہیں؟
جواب
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اگر کسی حدیث میں علتِ قادحہ یا شذوذ کی بنا پر ضعف پایا جائے، تو یہ کہنا درست ہے کہ "فلاں حدیث (بظاہر) سنداً صحیح ہے مگر متناً ضعیف ہے”۔ کیونکہ ایسی حدیث علتِ قادحہ کی وجہ سے ضعیف کہلاتی ہے۔
نوٹ:
علتِ قادحہ یا معلول ہونے کا فیصلہ صرف محدثین کرام اور علم علل الحدیث کے ماہرین ہی کرسکتے ہیں۔
لیکن اگر "بظاہر” کی قید ہٹا کر یہ کہا جائے کہ
"فلاں حدیث سنداً صحیح ہے مگر متناً ضعیف ہے”
یا
"روایتاً صحیح ہے مگر درایتاً ضعیف ہے”
تو یہ غلط ہے۔
اگر کوئی حدیث سنداً صحیح ہو، اس میں شذوذ یا علت قادحہ نہ ہو، اور محدثین نے اس کو صحیح قرار دیا ہو، تو وہ حدیث ہمیشہ صحیح ہی کہلائے گی اور اس کا متن بھی صحیح ہی ہوگا۔
البتہ بعض ایسی سندیں بظاہر صحیح معلوم ہوتی ہیں مگر ان کا متن ضعیف یا وہمی محسوس ہوتا ہے، تو ان کے ضعف یا وہم کی حقیقت صرف محدثین ہی شذوذ اور علتِ قادحہ کی روشنی میں ظاہر کرتے ہیں۔
صحیح حدیث کی شرائط
اہل حدیث (یعنی محدثین کرام اور ان کے متبعین) کا اس بات پر اجماع ہے کہ صحیح حدیث کے لیے پانچ شرطیں ضروری ہیں:
➊ ہر راوی عادل ہو
➋ ہر راوی ضابط ہو
➌ سند متصل ہو
➍ شاذ نہ ہو
➎ معلول نہ ہو
📚 دیکھئے: مقدمۃ ابن الصلاح مع شرح العراقی، ص 20
یہ بات بھی واضح رہے کہ شذوذ اور علت کا تعلق درایت (یعنی فہم اور علم) سے ہے۔
تنبیہ
اگر کسی راوی پر بعض محدثین نے جرح کی ہو، لیکن جمہور محدثین نے اسے ثقہ یا صدوق قرار دیا ہو، تو ایسا راوی بعض اوقات ضابطہ میں تھوڑا کمزور ہوتا ہے۔ ایسی صورت میں اس کی حدیث "حسن لذاتہ” کہلاتی ہے۔
لہٰذا:
✿ صحیح اور
✿ حسن لذاتہ
دونوں احادیث حجت ہوتی ہیں، اور ان پر عمل واجب ہوتا ہے۔
والحمدللہ
علم الروایہ اور علم الدرآیہ
علم الروایہ کی ایک شاخ علم الدرآیہ بھی ہے، جس میں علل اور شذوذ جیسے مباحث شامل ہوتے ہیں۔
موجودہ دور میں بعض متجددین اور منکرین حدیث نے علم الروایہ اور علم الدرآیہ کو الگ الگ کر کے، صحیح احادیث کو قرآن یا عقل کے خلاف سمجھ کر رد کرنا شروع کر دیا ہے۔ یہ نظریہ باطل اور مردود ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب