کیا رسول اللہﷺ نے انبیاء کے وسیلے سے دعا کی؟ تحقیقی جائزہ
ماخوذ : فتاویٰ علمیہ – توضیح الاحکام، جلد 2، صفحہ 542

سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی والدہ اور انبیاء کے وسیلے سے دعا: تحقیقی جائزہ

سوال:

کیا یہ روایت ثابت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی والدہ فاطمہ بنت اسد رضی اللہ عنہا کی وفات پر یہ دعا کی:

"بحق نبیک و الانبیاء الذین من قبلی”

یعنی: "اپنے نبی اور مجھ سے پہلے انبیاء کے وسیلے سے ان کی قبر کو کشادہ فرما۔”

جواب:

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

روح بن صالح کی بیان کردہ ایک روایت میں یہ واقعہ بیان ہوا ہے:

حدیث کا متن:

’’حدثنا سفیان الثوری عن عاصم الاحول عن انس بن مالک قال:
لما ماتت فاطمة بنت اسد بن هاشم ام علی، دخل علیها رسول الله صلی الله علیه وسلم فجلس عند راسها فقال: رحمک الله یا امی، کنت امی بعد امی، تجوعین و تشبعینی و تعرین و تکوسننی و تمنعین نفسک طیب الطعام و تطمعینی، تریدین بذلک وجه الله والدار الآخرة، ثم امر ان تغسل ثلاثا و ثلاثا، فلما بلغ الماء الذی فیه الکافور سکبه علیها رسول الله صلی الله علیه وسلم بیده، ثم خلع رسول الله صلی الله علیه وسلم قمیصه فالبسه ایاه و کفنت فوقه، ثم دعا رسول الله صلی الله علیه وسلم اسامة بن زید و ابا ایوب الانصاری و عمر بن الخطاب و غلاما اسود لیحفروا فحفروا قبرها فلما یلغوا اللحمد حفره رسول الله صلی الله علیه وسلم بیده و اخرج ترابه بیده، فلما فرغ دخل رسول الله صلی الله علیه وسلم فاضجع فیه وقال:
الله الذی یحیی و یمیت و هو حی لایموت، اغفرلامی فاطمة بنت اسد و لقنها حجتها و وسع علیها مدخلها بحق نبیک والانبیاء الذین من قبلی، فانک ارحم الراحمین، ثم کبر علیها اربعا، ثم ادخلوها القبر هو والعباس وابوبکر الصدیق رضی الله عنهم۔‘‘

(المعجم الاوسط للطبرانی 152/1۔153 ح 191، و قال: ’’تفرد بہ روح بن صلاح‘‘، و عنہ ابو نعیم الاصبہانی فی حلیۃ الاولیاء 121/3، و عندہ: یرحمک اللہ… الحمدللہ الذی یحیی…، وعنہ ابن الجوزی فی العلل المتناہیہ 268/1، 269 ح 433)

روایت کی سند پر تحقیق

روایت کی ضعف کی دو بنیادی وجوہات ہیں:

اول: راوی "روح بن صلاح” کی ضعف

جمہور محدثین کے نزدیک روح بن صلاح ضعیف اور مجروح راوی ہے:

ابن عدی:
"وفی بعض حدیثہ نکرۃ”
یعنی اس کی بعض روایات میں نکارت (خرابی) ہے۔
(الکامل 1006/3، دوسرا نسخہ 63/4)

ابن یونس المصری:
"روت عنہ مناکیر”
یعنی اس سے منکر روایات مروی ہیں۔
(تاریخ الغرباء، بحوالہ لسان المیزان 466/2، دوسرا نسخہ 110/3)

امام دارقطنی:
"کان ضعیفا فی الحدیث، سکن مصر”
یعنی وہ حدیث میں ضعیف تھا اور مصر میں سکونت پذیر تھا۔
(المؤتلف والمختلف 1377/3)

ابن ماکولا:
"ضعفوہ فی الحدیث”
یعنی اسے حدیث میں ضعیف قرار دیا گیا۔
(الاکمال 15/5، باب شبابہ و شبانہ و سیابہ)

حافظ ذہبی:
"لہ مناکیر”
یعنی اس کی منکر (ضعیف و شاذ) روایات ہیں۔
(تاریخ الاسلام 160/17)

ابن الجوزی:
انہوں نے روح بن صلاح کو اپنی کتاب المجروحین (287/1) میں ذکر کیا اور اس حدیث کو "الاحادیث الواھیۃ” یعنی ضعیف احادیث میں شامل کیا۔
(العلل المتناہیہ: 433)

احمد بن محمد بن زکریا ابی عتاب البغدادی:
انہوں نے کہا کہ:
"ہمارا اس پر اتفاق ہوا کہ مصر میں علی بن الحسن السامی، روح بن صلاح اور عبدالمنعم بن بشیر تینوں کی حدیثیں نہ لکھی جائیں۔”
(لسان المیزان 213/4-214، سوالات البرقانی الصغیر: 20، بحوالہ المکتبۃ الشاملۃ)

اگرچہ کچھ علماء نے اس کی توثیق بھی کی، لیکن وہ جمہور کے خلاف ہیں:

ابن حبان:
روح بن صلاح کو کتاب الثقات (244/8) میں ذکر کیا۔

حاکم:
"ثقہ مامون، من اھل الشام”
(سوالات مسعود بن علی السجزی: 68، ص 98)

یعقوب بن سفیان الفارسی نے اس سے روایت لی۔
(موضح اوہام الجمع و التفریق للخطیب 96/2)

نتیجہ: جمہور محدثین کی جرح کے مقابلے میں ان چند کی توثیق مردود ہے۔

دوم: سفیان ثوری کی تدلیس

اگر بالفرض روح بن صلاح کو ثقہ مان بھی لیا جائے، تب بھی روایت ضعیف ہے، کیونکہ:

سفیان ثوری نے یہ روایت "عن” کے ذریعے بیان کی ہے، اور وہ مدلس تھے۔

◈ مدلس راوی کی "عن” سے روایت غیر مقبول ہوتی ہے جب تک کہ سماع کی تصریح نہ ہو۔

محمد عباس رضوی بریلوی کہتے ہیں:

"سفیان مدلس ہے اور روایت انہوں نے عاصم بن کلیب سے عن کے ساتھ کی ہے، اور اصولِ محدثین کے تحت مدلس کا عنعنہ غیر مقبول ہے.”
(مناظرے ہی مناظرے، ص 249)

مزید تفصیل کے لیے دیکھیے:
ماہنامہ الحدیث حضرو: شمارہ 67، صفحات 11 تا 32

خلاصہ تحقیق:

◈ سوال میں مذکور روایت ضعیف و مردود ہے کیونکہ:

➊ راوی روح بن صلاح ضعیف ہے۔

➋ سفیان ثوری کی تدلیس کی وجہ سے سند بھی ضعیف ہے۔

نیز دیکھیے:
سلسلۃ الاحادیث الضعیفۃ والموضوعۃ للالبانی (32/1 – 34، حدیث 23، وقال: ضعیف)

ھذا ما عندی، والله أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1