کیا رب کے اذن سے بندے رب والے کام کر سکتے ہیں؟ اشرف جلالی کو جواب
یہ اقتباس الشیخ سید توصیف الرحمٰن راشدی کی کتاب عقیدہ توحید پر جلالی کے شبہات کا ازالہ سے ماخوذ ہے۔

اشرف جلالی کا ایک اور شبہ کہ رب والے کام اس کے بندے بھی کر سکتے ہیں:

جلالی صاحب مزید کہتے ہیں: جہاں تک بات ہے کہ مددگار ہونا، بیڑے پار لگانا، مشکل کشا ہونا، حاجت روا ہونا، داتا ہونا، دستگیر ہونا اور غریب نواز ہونا، تو یاد رکھو! رب کے اذن (اجازت) کے بغیر تو کوئی پتا بھی نہیں ہل سکتا، لیکن جب رب کا اذن ہو جائے تو سارے کام رب کے بندے بھی کر سکتے ہیں۔

اس شبہہ کا ازالہ:

ہم کہتے ہیں کہ رب کا اذن (اجازت) ہو جائے تو۔ لیکن اس کی کیا دلیل ہے کہ جن لوگوں کو آپ داتا، غریب نواز، گنج بخش بنائے بیٹھے ہو، ان کو اللہ تعالیٰ نے آپ لوگوں کی مشکل کشائی، حاجت روائی کی اذن و صفت عطا فرما رکھی ہے؟ آخر آپ کو کس نے خبر دی؟ بات یہ ہے کہ یہاں تو غیر اللہ کو اس انداز سے پکارا جاتا ہے اور پوجا جاتا ہے کہ رب کی توہین بالکل واضح اور عیاں ہوتی ہے۔ مثلاً، قوال اس عورت کو کہتا ہے جو اللہ اللہ کرتی ہے، مصلی سنبھالتے ہوئے بیت اللہ پہنچتی ہے اور جا کر اس نے اللہ کو پکارا، اپنی حاجت پیش کی تو اللہ تعالیٰ نے کہا:
پگلی! میرے پاس کیا لینے آئی ہے، میرے پردے میں سوائے وحدانیت کے کیا ہے؟ جو لیتا ہے وہ مل رہا ہے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے شہر میں۔
(قوال کہتا ہے):

ہاتھ میں تسبیح، بغل میں مصلی
لب پہ جاری اللہ اللہ
کہتی ہوئی پہنچی بیت اللہ
اور پکاری، اے میرے اللہ!
تو گدا کو جو نوازے تو شہنشاہ بنے
اور یتیموں کو چاہے تو پیغمبر کر دے
اے میرے اللہ!

تو آواز آئی:
اے پگلی! میرے پردے میں وحدت کے سوا کیا ہے؟ جا، جو کچھ لینا ہے لے لے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے شہر میں۔ (استغفر اللہ)
اور جیسے: خواجہ نہ دے گا تو پھر کون دے گا۔
اللہ تعالیٰ کی کھلم کھلا توہین پر مبنی یہ کفر تک پہنچانے والی عبارتیں ہیں۔ اس سے بڑھ کر بھی شرک کا ثبوت چاہتے ہو؟

جلالی صاحب! کاش ہم پر اعتراض کرنے سے قبل آپ نے اپنے ہی بزرگوں کی تعلیمات کو پڑھا ہوتا:

❀ آئیے ذرا خواجہ غلام فرید رحمہ اللہ کا ایک قول ملاحظہ کریں:
مقابیس مجالس میں (توحید کے بارے میں) خواجہ صاحب رحمہ اللہ کہتے ہیں: وہابیوں کے عقائد صوفیاء سے ملتے جلتے ہیں۔
وہابی کہتے ہیں: انبیاء اور اولیاء سے مدد مانگنا شرک ہے، بے شک غیر خدا سے مدد مانگنا شرک ہے۔ توحید یہ ہے کہ خاص اللہ سے مدد مانگی جائے، اسی لیے قرآن پاک میں حکم ہے:
إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ
(الفاتحة: 5)
ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ سے ہی مدد مانگتے ہیں۔
ہم کہتے ہیں کہ غیر اللہ سے مافوق الاسباب مدد مانگنا شرک ہے اور تم کہتے ہو کہ شرک نہیں ہے، تو ذرا ہم خواجہ صاحب رحمہ اللہ کے قول کے پیش نظر دیکھتے ہیں تو بات واضح ہوتی ہے۔
سورة الانعام آیت نمبر 121 کی تفسیر اپنے مکتب فکر کے معروف و مسلمہ شخص نعیم الدین مراد آبادی رحمہ اللہ سے سنیں، لکھا ہے:
کیونکہ دین میں حکم الہی کو چھوڑنا اور دوسرے کے حکم کو ماننا، اللہ کے سوا اور کسی کو حاکم قرار دینا شرک ہے۔
حاشیه کنز الایمان، ص : 257
آپ کے حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: اس میں خطاب مسلمانوں سے ہے کہ اگر تم نے کفار کی یہ بات مان لی اور ذبیحہ و مردار جانور میں فرق نہ کیا تو تم بھی انہی کی طرح مشرک و کافر ہو گے۔
ضياء القرآج ، ج : 1، ص : 597 ، حاشیه نمبر 153.
آپ کے پیر محمد کرم شاہ الازہری رحمہ اللہ، بھیرہ والے نے اس کی تفسیر میں لکھا: اس آیت سے معلوم ہوا کہ جو شخص اللہ کی حرام کی ہوئی چیزوں کو حلال یقین کرتا ہے وہ مشرک ہو جاتا ہے۔
تفسیر نعیمی، ج: 8، ص : 64.
یاد رہے یہ تفسیریں سلفی علماء کی نہیں بلکہ خود بریلوی اکابر اور پیروں کی ہیں، مگر شرک کی تعریف اور اطلاق ملاحظہ فرمائیں۔
یعنی دینی امور میں اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی شخص کسی اور کی اتباع کرتا ہے، کسی اور کے پیچھے چلتا ہے تو اس نے شرک کیا۔
افسوس! آج کل کھلم کھلا قرآنی آیات اور احادیث کو پڑھ کر سنایا جائے تو جواب ملتا ہے کہ بات ٹھیک ہے مگر ہمارے مذہب کے خلاف ہے۔ لاہور کے ایک مولوی صاحب کی تقریر سننے کا موقع ملا، کہتے ہیں کہ وہابی قرآن مجید سے وہ آیات تلاش کرتے ہیں جو ہمارے مذہب کے خلاف ہیں۔
جلالی صاحب کی پیش کردہ شرک کی تعریف کے برخلاف ان کے اکابرین کی ایک فہرست ہے۔ ہم طوالت کے خوف سے اس پر اکتفا کرتے ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ آپ کو اپنے بزرگوں اور بڑوں کے عقائد کا خود علم نہیں، ہم آپ کو ان کے عقائد بیان کر کے بتا رہے ہیں۔ ہماری بات چھوڑیں کیونکہ آپ کے بقول ہم تو ٹھہرے غیر مقلد۔

اشرف جلالی بریلوی کا عقیدہ: اللہ سے براہِ راست نہیں مانگ سکتے

جلالی صاحب کہتے ہیں:
یہ مناسبت توحید و رسالت کی، بلکہ قرآن مجید نے واضح کر دیا ہے کہ اگر کوئی شخص یہ چاہے کہ میں در رسالت میں جائے بغیر، اللہ تعالیٰ سے اپنا تعلق قائم کر لوں، اللہ نے کہا: یہ بھول ہے، کوئی اس کے بغیر اللہ تعالیٰ کو بھی نہیں پا سکتا۔ یہود و نصاریٰ کا قول باقاعدہ اللہ تعالیٰ نے ذکر کر دیا۔ فرمایا:
وَقَالَتِ الْيَهُودُ وَالنَّصَارَىٰ نَحْنُ أَبْنَاءُ اللَّهِ وَأَحِبَّاؤُهُ
(المائدة: 18)
یہود و نصاریٰ کہنے لگے: ہم اس نبی کا کلمہ نہیں پڑھیں گے، ہم ڈائریکٹ رابطہ اپنے رب سے رکھتے ہیں۔ ہم اس کے بیٹے ہیں۔ (معاذ اللہ) ہم اس کے بڑے پسندیدہ ہیں۔ ہم رب والے ہیں، ہم نبی والے نہیں بنیں گے۔ ہم رب سے براہِ راست رابطہ رکھتے ہیں۔
یہ اس آیت کا شان نزول ہے جب یہ آیت اتری:
قُلْ إِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللَّهُ
(آل عمران: 31)
اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اے میرے محبوب! یہ جو ڈائریکٹ مجھ سے رابطہ رکھنا چاہتے ہیں، انہیں فرما دو اگر تمہارے بغیر یہ میرا محب بننا چاہیں، جو کچھ بھی کر لیں، محبت نہیں بناؤں گا ان کو، اگر تمہارے ہو کے، میرا بنا چاہیں گے تو انہیں محبوب بھی بنا لوں گا۔ اس آیت کی یہ تفسیر دیکھ لو۔

جلالی صاحب مزید کہتے ہیں کہ بعض لوگ براہِ راست اللہ تعالیٰ سے رابطہ چاہتے تھے اور پھر کہتے تھے کہ ہمیں اس نبی کی ضرورت نہیں، ان کے بغیر ہم رب والے ہیں، آج بھی بعض لوگوں کو غلط فہمی ہو گئی کہ ہم رب والے ہیں اور وہ ہمیں کہتے ہیں کہ تم رسول والے ہو۔

اس گمراہ کن شبے کا ازالہ:

جلالی صاحب! شیشے کے گھر میں بیٹھ کر سنگ باری کرنا اچھا شغل میلہ نہیں ہے، کوئی دیوانہ سامنے سے پتھر مار دے گا تو آپ کا گھر چکنا چور ہو جائے گا۔ یہ آسان کھیل نہیں ہے، اللہ کی قسم! کبھی کسی اہل حدیث سے یہ جملہ ثابت نہیں کروایا جا سکتا، اگر کوئی ایسا کہے تو ہم انکار کرتے ہیں، برات کا اعلان کرتے ہیں اس عقیدے سے جو تم نے ہمارے ذمے لگایا کہ ہم اللہ والے ہیں اور تم نبی والے ہو، نہیں! اللہ کی قسم! ہم ہی اللہ والے ہیں اور ہم ہی نبی والے ہیں۔ جو اللہ والا ہوتا ہے وہی نبی والا ہوتا ہے۔ آپ نے ہمیں طعنہ دیا یہودیوں کا کہ یہودیوں کی طرح تم نے بھی کہا کہ ہم رب والے ہیں۔ حضرت! اگر قبر پرستوں کا یہودیوں سے مقارنہ کیا جائے تو قبر پرستوں کے اکثر عقائد ایسے ہیں جو انہوں نے یہودیوں سے لیے ہیں۔ نہیں یقین تو آؤ ہم آپ کو وادی یقین میں لے چلتے ہیں۔ یہودیوں نے کہا:
وَقَالَتِ الْيَهُودُ عُزَيْرٌ ابْنُ اللَّهِ وَقَالَتِ النَّصَارَى الْمَسِيحُ ابْنُ اللَّهِ
(التوبة: 30)
اور یہودیوں نے کہا: عزیر اللہ کا بیٹا ہے اور نصاریٰ نے کہا مسیح اللہ کا بیٹا ہے۔
یہ یہود و نصاریٰ کا دعویٰ ہے۔ آج کے شرک کرنے والے ان سے چار ہاتھ آگے ہیں۔ یعنی انہوں نے تو اللہ تعالیٰ کو دو ہستیاں تسلیم کیا۔ (نعوذ باللہ) لیکن یہاں کیا حالت ہے؟ محمد یار فریدی گڑھی اپنی کتاب دیوان محمدی میں کہتا ہے:
اگر محمد یار صاحب (مؤلف) نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو خدا مان لیا، پھر تو مسلمان ہے، دغا باز نہیں۔
یہود و نصاریٰ نے تو اللہ تعالیٰ کو مان کر ان کا بیٹا بنایا۔ لیکن دیوان محمدی والا کہتا ہے کہ کو خدا مانا تو مسلمان، ورنہ دغا باز۔ یہ عقیدہ اگر یہود و نصاریٰ سے نہیں لیا تو اور کہاں سے لیا؟
اور اذان سے قبل الصلوة والسلام عليك يا نورا من نور الله یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے نور میں سے نور ہیں۔ اسے مثال سے سمجھیں، ہمارے ہاتھ میں یہ کاغذ ہے، ہم نے اسے دو حصوں میں کر دیا تو کیا اس کی جنس بدل گئی؟ نہیں، جنس نہیں بدلی بلکہ دو حصے ہو گئے۔
ایسے ہی یہ ہے کہ اے اللہ کے رسول! آپ اللہ کے نور میں سے نور ہیں۔ بتاؤ، جب اللہ کے نور میں سے ایک حصہ نور کا الگ ہوا تو وہ اللہ ہوا یا نہ؟ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے نور میں سے نور ہیں تو پھر بتاؤ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس دنیا پر تشریف لائے تو نمازیں کس کے لیے پڑھتے تھے؟ خدیجہ رضی اللہ عنہا سے نکاح کس کا ہوا؟ فاطمہ رضی اللہ عنہا کس کی بیٹی تھی؟ عائشہ رضی اللہ عنہا اور حفصہ رضی اللہ عنہا زوجہ کس کی بنیں؟ مکہ کس نے چھوڑا؟ ماتھا مبارک کس کا زخمی ہوا؟ دندان مبارک کس کے شہید ہوئے؟ طائف والوں نے کس پر حملہ کیا؟ جبریل علیہ السلام کس پر وحی الہی کو لے کر آئے تھے؟
لوگوں نے کہا:

وہی جو مستوی عرش تھا خدا ہو کر
اتر پڑا مدینے میں مصطفیٰ ہو کر

آؤ آپ کو ایک اور عمل بتاؤں۔ اہل شرک اور یہود و نصاریٰ اس عمل میں بھی دونوں برابر ہیں۔ حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے:
لعن الله اليهود والنصارى اتخذوا قبور أنبيائهم مساجد
اللہ تعالیٰ یہود و نصاریٰ پر لعنت کرے کہ انہوں نے اپنے پیغمبروں کی قبروں کو سجدہ گاہ بنالیا۔
(صحيح البخاري: 1330)
اور دوسری حدیث اس طرح ہے:
أولئك إذا مات منهم الرجل الصالح بنوا على قبره مسجدا، ثم صوروا فيه تلك الصورة، أولئك شرار الخلق عند الله
ان لوگوں کی یہ عادت تھی کہ ان میں اگر کوئی نیک آدمی مر جاتا تو اس کی قبر پر مسجد اور تصویریں بنا دیتے، قیامت کے دن یہ لوگ اللہ کے ہاں بدترین مخلوق ہوں گے۔
(صحيح البخاري: 427)
یہ بدترین عمل یہود و نصاریٰ کے اندر تھا، لیکن مسلمانوں نے یہ عمل لے کر برصغیر کی گلیوں کو بھر دیا، انڈیا، پاکستان میں کئی ایسی جگہیں آپ کو ملیں گی، جہاں اہل قبور کی عبادت کی جاتی ہے، سجدے کیے جاتے ہیں، نذریں دی جاتی ہیں وغیرہ۔
یہاں ایک بات یہ بھی یاد رہے کہ یہود و نصاریٰ نے تو انبیاء اور نیک لوگوں کی قبروں کو سجدہ گاہ بنایا، لیکن آج کے مشرکوں نے اس سے بڑھ کر بھنگیوں، چرسیوں، افیون پینے والوں اور ملنگوں کے نام پر قبریں بنائیں۔ کیا لاہور میں گھوڑے شاہ کا دربار نہیں؟ ایبٹ آباد میں کھوتے شاہ کی قبر نہیں ہے؟ اگر کسی کو یہ قبریں نہ ملیں تو اللہ کی قسم! میں نے اپنی آنکھوں سے ایک بجلی کا کھمبا دیکھا جس کے ساتھ چادریں، بوریاں اور ٹاکیاں لٹکی ہوئیں اور وہاں لکھا ہے:
بابا کھمبا پیر مسکین خاری شاہ رحمہ اللہ۔ اسی طرح بابا گراڑے والی سرکار۔
وہ یہود و نصاریٰ تھے، لیکن آج ماں، بہن، بیٹی کی گندی گالیاں دینے والوں اور ہر وقت ننگے رہنے والوں کے مقبرے بنے ہوئے ہیں۔
❀ جلالی صاحب! لاہور میں آپ نے پیر نوری بوری سرکار کی قبر تو دیکھی ہوگی۔ یہ وہ پیر ہے جو مردوں اور عورتوں کو نچایا کرتا تھا، دھمال ڈلوایا کرتا تھا، نوجوان لڑکیوں کو بھڑکیلے لباس پہنوا کر نچوایا کرتا تھا۔ اور وہ نچوانے والا بابا، بوڑھا کیا کہتا تھا: جو نہیں دھمال ڈالتا اس کی ماں کو کروں اور اس کی بہن کو کروں، اور اس کے سپیکر سے اعلان ہوتا تھا کہ وہابی ہو تو دھمال ڈالو، بریلوی ہو تو دھمال ڈالو، شیعہ ہو تو دھمال ڈالو اور جو نہیں دھمال ڈالے گا وہ قیامت کے دن نجات نہیں پا سکے گا۔
❀ جلالی صاحب! تم نے بے نمازیوں کے مقبرے بنائے۔ نہیں یقین تو جاؤ لال شاہ کی قبر پر بیٹھی ایک مریدنی سے پوچھو، اس سے پوچھا گیا کہ بی بی! یہ کون ہیں؟ بی بی نے کہا: یہ اللہ والے ہیں۔ کہا: بی بی، میں نے سنا ہے کہ یہ نماز نہیں پڑھتے تھے؟ اس نے کہا: یہ بہت پہنچی سرکار ہیں، نماز روزے والی باتیں ان میں نہیں تھیں۔ یہ بے نماز پیر ہیں۔ لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر کون اللہ کے نزدیک پہنچا ہوا ہو سکتا ہے؟ ایک جنگ کے موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز پڑھنے سے کافروں نے روک دیا، تو جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھی تو فرمایا: اے اللہ! ان کے گھروں، قبروں اور پیٹوں کو آگ سے بھر دے۔ انہوں نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز سے روک دیا ہے۔
(صحيح البخاري: 4533)
لہذا جلالی صاحب! یہود و نصاریٰ کے عقائد ہمیں اپنے ہی ان کلمہ گو بھائیوں کے گھروں سے بہت سے مل جائیں گے۔ اس لیے ہمیں طعنہ دینے کے بجائے اور ہمارے ذمے جھوٹ لگانے کے بجائے ذرا اپنے معاشرے کے لوگوں کا جائزہ لیں۔

❀ جلالی صاحب! آپ کہتے ہیں کہ یہ رب والے ہیں، ہم رسول والے ہیں

ہم کہتے ہیں کہ جو رب والا ہوتا ہے وہی رسول والا ہوتا ہے اور اسی کی آخرت سنورتی ہے، اور جو صرف رسول والا بن جائے، اللہ والا نہ بنے تو وہ کامیاب نہیں ہے۔ مثلاً: ابو طالب رضی اللہ عنہ رب والے نہیں تھے بلکہ رسول والے تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شعب ابی طالب میں جب محصور ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دفاع کیا اور کہتے تھے کہ جب تک ابو طالب زندہ ہے، اپنا پیغام پہنچاؤ، جو انگلی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف اٹھے گی کاٹ ڈالوں گا، جو آنکھ بری نظر سے دیکھے گی پھوڑ ڈالوں گا۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا:
قولوا لا إله إلا الله
کلمہ نہ پڑھا، اللہ والے نہ بنے، بلکہ پوچھنے پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سب سے کم عذاب انہیں ملے گا۔
آئیے اپنے ہاں کا ایک معتبر حوالہ سنیں، اہل تصوف کی کتاب دیکھیے الرسالة القشيرية، ابوسعید الخراز رحمہ اللہ بیان کرتا ہے:
رأيت النبى صلى الله عليه وسلم فى المنام فقلت: يا رسول الله، اعذرني فإن محبة الله تعالى شغلتني عن محبتك، فقال: يا مبارك من أحب الله تعالى فقد أحبني
میں نے خواب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا، اور کہا: اے اللہ کے رسول! مجھے معاف کر دینا، میں اللہ تعالیٰ کی محبت میں اس قدر مشغول ہو گیا کہ میں وہ محبت آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے نہیں کر سکا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسے مبارک ہو جس نے اللہ تعالیٰ سے محبت کی تو تحقیق اس نے مجھ سے محبت کی۔
رساله القشيريه : 494/2.
آپ کہتے ہو کہ وہابیوں کو توحید سے فرصت ہی نہیں۔ یہ آپ کا حوالہ اور آپ کا بندہ ہے جو کہتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو اللہ والا ہو جاتا ہے وہ میرا خود بخود ہو جاتا ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے متعلق اہلحدیث کا عقیدہ

جلالی صاحب! ہمارا عقیدہ یاد رکھ لیں کہ ہم اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرتے ہیں اور جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں ذرہ برابر گستاخی کرتا ہے وہ پکا کافر ہے اور جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بات نہیں مانتا، اس کے ایمان کی نفی اللہ تعالیٰ نے فرما دی ہے، فرمایا:
فَلا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتَّىٰ يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوا فِي أَنْفُسِهِمْ حَرَجًا مِمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوا تَسْلِيمًا
(النساء: 65)
تےری رب کی قسم! وہ مومن نہیں ہوتے جب تک کہ وہ تیری طرف اپنے باہمی اختلافات میں فیصلہ کے لیے نہ رجوع کریں، پھر جو تو فیصلہ کرے اس سے اپنے دلوں میں کوئی تنگی نہ پائیں اور مکمل طور پر تسلیم کر لیں۔
جلالی صاحب آپ کا دعویٰ کہ ہم رسول والے ہیں اور اہل حق واہل توحید رب والے ہیں، بے بنیاد ہے۔
کیونکہ حقیقت یہ ہے کہ جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرتے ہیں وہ نہ رب والے ہوتے ہیں اور نہ رسول والے۔ اہل توحید ہی رب والے اور رسول والے ہیں اور اب آئندہ سطور میں ہم اس بات کو واضح کرتے ہیں کہ کیا یہ رسول والے ہیں یا پھر وہ اپنے دعوے میں ویسے ہی جھوٹے ہیں جیسے وہ توحید کے دعوے میں جھوٹے ہیں، جن کی پیشانیاں غیر اللہ کے سامنے جھکتی ہیں، جن کی زبانوں سے غیر اللہ کی صدائیں بلند ہوتی ہیں، جو پریشانیوں اور غموں تک غیر اللہ کو پکارتے ہیں اور جو اپنے فقہی مسائل میں رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوڑ کر امتیوں کے اقوال حجت سمجھتے ہیں، امتیوں کی تقلید کا پٹا گلے میں ڈال لیتے ہیں، اور پھر بھی خود کو رسول والے کہتے ہیں اور توحید کے دعوے دار ہیں۔
حالانکہ حقیقت اس کے برعکس ہے کیونکہ ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ رب کی محبت سب سے افضل اور سب سے پہلے ہے اور رب کے حکم سے ہی رب کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کی جاتی ہے۔ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت و اتباع کرتے ہیں، کیونکہ اللہ نے اس کا حکم دیا ہے اور جس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کی گویا اس نے اللہ کی اطاعت کی۔ فرمان الہی ہے:
قُلْ إِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللَّهُ
(آل عمران: 31)
اگر تم اللہ سے محبت کرنا چاہتے ہو تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کرو۔
اور فرمایا:
فَإِنْ تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسُولِ
(النساء: 59)
پھر اگر تم کسی چیز میں جھگڑ پڑو تو اسے اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف لوٹاؤ۔
اور فرمان مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم ہے:
وأن يحب المرء لا يحبه إلا لله
مومن جب بھی کسی سے محبت کرتا ہے تو صرف اللہ کے لیے کرتا ہے۔
(صحيح البخاري: 16)
اگر یہ لوگ واقعتاً رسول والے ہوتے تو انہیں غیر رسول کی حاجت وضرورت نہ ہوتی۔ اگر آپ رسول والے ہیں تو محمدی بنئے، سہروردی، نقشبندی، چشتی، قادری، رضوی، نوری کیوں بنے؟ چنانچہ اگر ہم پر کوئی اعتراض کرے کہ تم اہل حدیث کیوں ہو؟
تو ہم اہل حدیث اس لیے ہیں کہ فرمان الہی اور فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو حدیث کہا گیا ہے۔ ہم اللہ والے اور رسول والے ہیں اس لیے اہل حدیث ہیں۔ آپ لوگ تو امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے ساتھ بھی نہ رہے۔ کیونکہ الیاس قادری صاحب کہتے ہیں کہ اب ہم نے احمد رضا بریلوی رحمہ اللہ کا دروازہ پکڑ لیا ہے اور یہ ہمیں جنت میں لے جائے گا۔ لیکن اگر آپ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر ٹھہرتے تو پھر بھی آپ ہمارے بھائی ہوتے، کیونکہ امام صاحب رحمہ اللہ نے عقیدہ توحید کا درس دیا ہے۔ ہم اہل حدیث کیوں ہیں؟ اس لیے کہ قرآن کہتا ہے:
أَفَمِنْ هَٰذَا الْحَدِيثِ تَعْجَبُونَ
(النجم: 59)
قرآن بھی حدیث ہے اور حدیث بھی۔
اور حدیث کی تعریف بیان ہوئی ہے:
ہر وہ بات جس کی نسبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول، فعل، صفت اور تقریر کی طرف ہو وہ حدیث ہے۔
ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے احکامات و فرامین، عقائد، ایمانیات، نماز، روزہ، حج وغیرہ اور تمام عبادات میں کافی ہیں۔
چنانچہ ان ساری باتوں سے واضح ہوا کہ آپ کا دعویٰ ہم رسول والے ہیں غلط ہے، اگر آپ اس دعوے میں سچے ہوتے تو کبھی غیر رسول کی پناہ نہ لیتے، لہذا جو اللہ والا ہوتا ہے وہی رسول والا ہوتا ہے، اس لیے اس طرح کے جھوٹ ہمارے ذمے نہ لگائیں۔

 

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے