سوال:
کیا دو عادل گواہوں کی گواہی سے رویت ثابت ہو جاتی ہے؟
جواب:
جی ہاں، ایک عادل گواہ کی گواہی سے بھی رویت ثابت ہو جاتی ہے۔
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
تراني الناس الھلال، فأخبرت رسول اللہ صلى اللہ عليھ وسلم، أني رأيتھ فصامھ، وأمر الناس بصيامھ.
لوگوں نے ہلال دیکھا، تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر دی کہ میں نے چاند دیکھا ہے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (رمضان کا) روزہ رکھا اور لوگوں کو بھی حکم دیا۔
(سنن أبی داود: 2342، سنن الدارقطنی: 2156، وسندہ صحیح)
اس حدیث کو امام ابن حبان رحمہ اللہ (3447) نے صحیح، امام حاکم رحمہ اللہ (1/324) نے امام مسلم کی شرط پر صحیح کہا ہے، حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے موافقت کی ہے۔
❀ حافظ خطابی رحمہ اللہ (388ھ) فرماتے ہیں:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا روزے کے معاملہ میں صرف ایک شخص کی بات کو قبول کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ اخبار آحاد پر عمل کرنا واجب ہے، نیز خبر دینے والا صرف ایک ہی شخص ہو یا لوگوں کی ایک جماعت خبر دے، کوئی فرق نہیں پڑتا۔
(معالم السنن: 2/102)