کیا خدا کو جانتے ہوئے نافرمان لوگوں کو پیدا کرنا درست ہے؟

سوال

جب خدا کو ہر چیز کا علم ہے اور وہ جانتا ہے کہ کون لوگ امتحان میں ناکام ہوں گے اور جہنم کا ایندھن بنیں گے، تو پھر ایسے لوگوں کو پیدا کرنے کا کیا مقصد؟ کیا یہ صرف جہنم کو بھرنے کے لیے ہے؟

تبصرہ

اس سوال کے جواب کے دو پہلو ہیں:

  • خدا سے بندے کی طرف
  • بندے سے خدا کی طرف

ان دونوں پہلوؤں پر باری باری گفتگو کی جائے گی۔

1. خدا سے بندے کی طرف

پہلا اصولی نکتہ یہ سمجھنا ضروری ہے کہ انسان "خدا کی نظر سے” ان معاملات کو پوری طرح نہیں سمجھ سکتا۔ خدا ازلی، قدیم اور زمان و مکان سے ماوراء ہے، جبکہ انسان ایک محدود مخلوق ہے جو وقت اور جگہ کے دائرے میں مقید ہے۔ لہذا، خدا کی ذات اور اس کے فیصلوں کو انسانی عقل سے مکمل طور پر سمجھنا ممکن نہیں۔

ایک تمثیل

فرض کریں کہ ہم ایک تین جہتی دنیا میں رہتے ہیں، جہاں لمبائی، چوڑائی اور گہرائی موجود ہے۔ اب تصور کریں کہ کسی "دو جہتی” دنیا میں صرف لمبائی اور چوڑائی ہو، لیکن گہرائی کا کوئی وجود نہ ہو۔ اس دو جہتی دنیا میں دو افراد کو دو مختلف دائروں میں قید کر دیا جائے۔ وہ افراد ایک دوسرے کو نہیں دیکھ سکیں گے کیونکہ ان کے پاس تیسری جہت (گہرائی) موجود نہیں۔ اسی طرح، ہم اپنے موجودہ دنیاوی جہات کی بنیاد پر "خدا کی دنیا” کا مکمل فہم حاصل نہیں کر سکتے، جو وقت اور مکان کی قید سے آزاد ہے۔

اسی طرح "وقت” بھی انسان کے لیے ایک محدود جہت ہے جبکہ خدا اس سے ماوراء ہے۔ معترضین کا اشکال دراصل زمانے اور تقدیم و تاخیر کے انسانی تصورات پر مبنی ہوتا ہے، جبکہ خدا کے لیے وقت کی یہ قیود لاگو نہیں ہوتیں۔ خدا کی نظر میں سب کچھ بیک وقت وقوع پذیر ہوتا ہے، اور یہ بات انسانی فہم کے دائرے سے باہر ہے۔ اس لیے یہ اعتراض کہ "جب خدا جانتا تھا تو اس نے کیوں پیدا کیا؟” غلط مفروضات پر مبنی ہے۔

خلاصہ

خدا کے معاملات اور اس کے فیصلے انسانی فہم سے بالاتر ہیں، اور انسان اس کی حکمت اور فیصلوں کو مکمل طور پر نہیں سمجھ سکتا۔

2. بندے سے خدا کی طرف

اب سوال کا دوسرا پہلو، جو دراصل جبر و قدر سے متعلق ہے، اس پر غور کرتے ہیں۔ اگر ہم اس نکتہ نظر سے دیکھیں کہ کائنات خدا کی صفات کا اظہار ہے، تو خدا کی صفت "ارادہ” بھی ہے، جس کا اظہار انسان کی صورت میں ہوتا ہے، جو اپنے ارادے کے مطابق عمل کرتا ہے۔

انسان کے اعمال کے بارے میں قرآن و سنت نے وضاحت کی ہے کہ انسان کو ارادے کی آزادی حاصل ہے۔ کسی کا پیدا کیا جانا اسے جہنم کا مستحق نہیں بناتا، بلکہ اس کے اعمال اس کا انجام طے کرتے ہیں۔

علم الہی اور انسان کا ارادہ

اللہ کے علم میں کیا ہے، یہ انسان کو معلوم نہیں ہوتا۔ اللہ نے انسان کو عمل کا اختیار دیا ہے اور یہ اختیار انسان کو شعوری طور پر محسوس ہوتا ہے۔ اگر انسان اپنے اعمال اللہ کے علم کی بنا پر انجام دے، تو جبر کا اعتراض درست ہوتا، مگر چونکہ انسان اپنے ارادے سے عمل کرتا ہے اور اسے اللہ کے علم کا شعور نہیں ہوتا، اس لیے جبر کا اعتراض درست نہیں۔

خلاصہ

اللہ کا علم انسان کے اختیار کو ختم نہیں کرتا۔ انسان اپنے اعمال کے لیے خود ذمہ دار ہے اور اسے اپنے ارادے سے عمل کرنے کا حق دیا گیا ہے۔

3. آزمائش کا فلسفہ

اس اعتراض کا ایک اور پہلو یہ ہے کہ کیا خدا کی طرف سے آزمائشیں غیر اخلاقی ہیں؟ دراصل، آزمائش کا مقصد انسان کے اختیار کو جانچنا ہے۔ اگر کسی کے متعلق پیشگی معلوم ہو کہ وہ ناکام ہوگا، تو اس سے آزمائش کا مقصد ختم نہیں ہوتا کیونکہ آزمائش کا دارومدار اختیار پر ہے۔

ملحدین کا موقف

ملحدین کا یہ اعتراض کہ "اگر خدا کو معلوم تھا کہ کوئی ناکام ہوگا، تو اسے پیدا کیوں کیا؟” دراصل آزمائش کے فلسفے کو ہی غیر اخلاقی قرار دیتا ہے۔ لیکن اگر آزمائش کو اصولاً مانا جائے تو یہ اعتراض بے بنیاد ہو جاتا ہے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے