سوال :
کیا حق مہر کی کوئی کم از کم مقدار متعین ہے؟ جیسے لوگ کہتے ہیں کہ شرعی مہر باندھ لو اورسوا بتیس روپے حق مہر قائم کر لیتے ہیں۔
جواب :
سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ ایک دفعہ ایک عورت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور کہنے لگی: ”اے اللہ کے رسول! میں آپ کی خدمت میں اپنے آپ کو مبہ کرنے آئی ہوں ۔“رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی طرف نظر اٹھا کر دیکھا اور پھر نظر نیچی کر لی اور سر جھکا لیا۔ جب اس نے دیکھا کہ آپ نے اس کے بارے میں کوئی فیصلہ نہیں فرمایا تو وہ بیٹھ گئی ۔ تو ایک صحابی نے کہا: ”اے اللہ کے رسول! اگر آپ کو اس عورت کی ضرورت نہیں تو اس کے ساتھ میرا نکاح کر دیں ۔“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”کیا تیرے پاس حق مہر کے لیے ، کوئی چیز ہے؟“ اس نے کہا: ”اللہ کی قسم ! اے اللہ کے رسول! کچھ بھی نہیں ہے۔“آپ نے فرمایا: ”اپنے گھر جاؤ اور دیکھو شائد کوئی چیز مل جائے ۔“ وہ گھر جاتے ہیں اور واپس آکر عرض کرتے ہیں: ”اللہ کی قسم ! اے اللہ کے رسول! مجھے کوئی چیز نہیں ملی۔“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: ”تلاش کرو، اگر چہ لوہے کی انگوٹی ہی مل جائے ۔“ وہ تلاش کرتا ہے لیکن اسے لوہے کی انگوٹی بھی نہیں ملتی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا نکاح قرآن کی چند سورتوں کے عوض کر دیا کہ وہ اسے یاد کروا دے گا۔
بخاری،كتاب فضائل القرآن باب القراءة عن ظهر القلب (5030)
اس حدیث سے یہ مسئلہ واضح ہو جاتا ہے کہ مہر کی کم از کم مقدار کا تعین نہیں ہے، جتنا آدمی کی ہمت میں ہو مہر دے سکتا ہے۔ امام شافعی اور جمہور علماء کا یہی موقف ہے کہ مہر کی وہ کم از کم مقدار جس پر فریقین راضی ہو جائیں، کفایت کرتی ہے۔ اس لیے کہ لوہے کی انگوٹی انتہائی کم قیمت والی ہے۔ ملا علی قاری حنفی سہل بن سعد والی حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں:
”مذهب الجمهور وهو الصحيح لهذا الحديث الصحيح الصريح“
مرقاة (645/3415)
”جمہور کا مذہب ہی صحیح ہے جو اس صحیح و صریح حدیث کی بنا پر ہے۔“
علمائے احناف کے ہاں دس درہم سے کم مہر نہیں ہو سکتا، اس کے لیے وہ ایک تو جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی روایت پیش کرتے ہیں، جس میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ولا مهر دون عشرة دراهم ”دس درہم سے کم مہر نہیں“ ۔ یہ روایت سنن الدارقطنی (3/ 335 : 3559) اور بیہقی وغیرہ میں موجود ہے، لیکن اس کی سند میں مبشر بن عبید ہے ، امام احمد فرماتے ہیں: ”اس کی روایات من گھڑت اور جھوٹی ہیں۔“ المغنی فی الضعفاء (244/2)، الجرح والتعديل (1572/8)
اسی طرح اس کی سند میں حجاج بن ارطاة بھی ہے اور ایک اثر علی رضی اللہ عنہ سے منقول ہے، اس کی سند میں داؤد الطائی ضعیف راوی ہے اور شعمی کی علی رضی اللہ عنہ سے ملاقات نہیں ہے۔ ایک سند میں جو یبر ضعیف ہے اور ایک طریق میں عبید اللہ بن موسی الربذی متروک ہے۔ ملاحظہ ہو سنن دار قطنی مع التعليق المغنی (245/3) لہذا اس موقف پر کوئی پختہ دلیل نہیں، صحیح اور صریح احادیث اس کے خلاف ہیں۔