سوال:
حضور اکرم ﷺ مختار کل تھے یا نہیں؟
سوال: امام ابوحنیفہؒ کی کتاب کو "گپ بازی” کہنا کیسا ہے؟
سوال: مصنوعی قبر کے ساتھ مسجد میں نماز کا حکم کیا ہے؟
جواب :
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
کیا حضور اکرم ﷺ مختار کل تھے
رسول اللہ ﷺ مختارِ کُل نہیں تھے۔ قرآنِ مجید میں کئی مقامات پر اس عقیدہ کی واضح تردید موجود ہے۔ ذیل میں چند آیات بمع ترجمہ پیش کی جا رہی ہیں:
قرآن کی آیات سے دلائل
➊ سورۃ یونس، آیت 15:
﴿وَإِذا تُتلى عَلَيهِم ءاياتُنا بَيِّنـتٍ قالَ الَّذينَ لا يَرجونَ لِقاءَنَا ائتِ بِقُرءانٍ غَيرِ هـذا أَو بَدِّلهُ قُل ما يَكونُ لى أَن أُبَدِّلَهُ مِن تِلقائِ نَفسى إِن أَتَّبِعُ إِلّا ما يوحى إِلَىَّ إِنّى أَخافُ إِن عَصَيتُ رَبّى عَذابَ يَومٍ عَظيمٍ ﴿١٥﴾
ترجمہ: اور جب ان کے سامنے ہماری صاف آیات پڑھی جاتی ہیں تو وہ لوگ جنہیں ہماری ملاقات کی امید نہیں، کہتے ہیں کہ اس کے سوا کوئی اور قرآن لاؤ یا اسے بدل دو۔ آپ ﷺ فرمائیں: مجھے اپنی طرف سے اسے بدلنے کا حق نہیں، میں تو صرف وہی پیروی کرتا ہوں جو میری طرف وحی کی جاتی ہے، اور اگر میں اپنے رب کی نافرمانی کروں تو مجھے ایک بڑے دن کے عذاب کا خوف ہے۔
➋ سورۃ آل عمران، آیت 128:
﴿ لَيسَ لَكَ مِنَ الأَمرِ شَىءٌ أَو يَتوبَ عَلَيهِم أَو يُعَذِّبَهُم فَإِنَّهُم ظـلِمونَ ﴿١٢٨﴾
ترجمہ: اے پیغمبر! آپ کے اختیار میں کچھ بھی نہیں، اللہ چاہے تو ان کی توبہ قبول کرے یا انہیں عذاب دے، کیونکہ وہ ظالم ہیں۔
➌ سورۃ انفال، آیت 67:
﴿ما كانَ لِنَبِىٍّ أَن يَكونَ لَهُ أَسرى حَتّى يُثخِنَ فِى الأَرضِ… ﴿٦٧﴾
ترجمہ: نبی کو قیدی بنانا زیب نہیں دیتا جب تک کہ زمین میں اچھی طرح خونریزی نہ ہو۔
➍ سورۃ انفال، آیت 68:
﴿لَولا كِتـبٌ مِنَ اللَّهِ سَبَقَ لَمَسَّكُم فيما أَخَذتُم عَذابٌ عَظيمٌ ﴿٦٨﴾
ترجمہ: اگر پہلے سے اللہ کی طرف سے بات لکھی نہ ہوتی تو جو تم نے لیا ہے اس پر تمہیں بڑا عذاب پہنچتا۔
➎ سورۃ یونس، آیت 49:
﴿قُل لا أَملِكُ لِنَفسى ضَرًّا وَلا نَفعًا إِلّا ما شاءَ اللَّهُ…﴿٤٩﴾
ترجمہ: آپ ﷺ فرما دیجئے کہ میں اپنی ذات کے لیے نہ نقصان اور نہ نفع کا اختیار رکھتا ہوں، سوائے اس کے جو اللہ چاہے۔
➏ سورۃ یونس، آیت 107:
﴿وَإِن يَمسَسكَ اللَّهُ بِضُرٍّ فَلا كاشِفَ لَهُ إِلّا هُوَ وَإِن يُرِدكَ بِخَيرٍ فَلا رادَّ لِفَضلِهِ…﴿١٠٧﴾
ترجمہ: اگر اللہ تمہیں کوئی تکلیف دے تو اس کے سوا کوئی اسے دور کرنے والا نہیں، اور اگر وہ تمہیں کوئی بھلائی دینا چاہے تو اس کے فضل کو کوئی روک نہیں سکتا۔
➐ سورۃ التحریم، آیت 1:
﴿يـأَيُّهَا النَّبِىُّ لِمَ تُحَرِّمُ ما أَحَلَّ اللَّهُ لَكَ تَبتَغى مَرضاتَ أَزوجِكَ وَاللَّهُ غَفورٌ رَحيمٌ ﴿١﴾
ترجمہ: اے نبی! جس چیز کو اللہ نے آپ کے لیے حلال کیا ہے، آپ اسے کیوں حرام کرتے ہیں؟ کیا آپ اپنی بیویوں کی خوشنودی چاہتے ہیں؟ اللہ بخشنے والا، رحم کرنے والا ہے۔
نتیجہ:
یہ تمام آیات صاف طور پر دلالت کرتی ہیں کہ چاہے رسول اللہ ﷺ ہوں یا کوئی نبی یا ولی، کوئی بھی "مختار کل” نہیں۔ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی کسی کی تقدیر نہیں بدل سکتا، نہ کسی کو نفع یا نقصان پہنچا سکتا ہے۔
نبی کریم ﷺ ہر فرض نماز کے بعد یہ دعا کرتے تھے:
اللهم لامانع لما اعطيت و لامعطى لما منعت . الخ
ترجمہ: اے اللہ! جو تو دے، اسے کوئی روک نہیں سکتا اور جو تو روک لے، اسے کوئی دے نہیں سکتا۔
امام ابو حنیفہؒ کی کتاب کو "گپ بازی” کہنا کیسا ہے
یہ بات سخت گستاخی پر مبنی ہے۔ ایسے شخص کو فوراً توبہ کرنی چاہیے۔ ائمہ کرامؒ کے متعلق توہین آمیز گفتگو کرنا بہت بڑا گناہ ہے۔
جہاں تک امام ابو حنیفہؒ کی تصانیف کا تعلق ہے، مشہور مؤرخ مولانا شبلی نعمانی نے سیرت النعمان میں تحریر کیا ہے کہ حضرت امام ابو حنیفہؒ (نعمان بن ثابتؒ) کی طرف منسوب کوئی کتاب ثابت نہیں، اور اگر کچھ تحریریں تھیں بھی تو وہ ناپید ہو چکی ہیں۔ اس بارے میں مزید تفصیل کے لیے سیرت النعمان کا مطالعہ ضروری ہے۔
مصنوعی قبر کے ساتھ مسجد میں نماز کا حکم
اگر کسی جگہ پر مصنوعی قبر بنائی جائے جہاں کسی کا قتل ہوا ہو، اور اس پر جھنڈے، پتھر، جھاڑو اور تبرک کے لیے پانی کا تالاب موجود ہو، اور اس کے ساتھ ایک مسجد بھی عبادت کے لیے بنائی جائے، تو ایسی مسجد میں نماز پڑھنا ناجائز ہے۔
احادیث مبارکہ سے دلائل:
➊ ابو مرثد غنویؓ سے روایت ہے:
قال قال رسول اللهﷺ لا تصلوا الى القبور ولا تجلسوا عليها.
(رواه الجماعة الاالبخارى و ابن ماجه، نيل الاوطار، ص150، ج2)
ترجمہ: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: قبروں کی طرف نماز نہ پڑھو اور ان پر نہ بیٹھو۔
➋ حضرت ابو سعید خدریؓ کی روایت:
الارض كلها مسجد الا المقبرة والحمام.
(رواه الخمسة الا النسائى، نيل الاوطار، ص148، ج2)
ترجمہ: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ساری زمین مسجد ہے، سوائے قبرستان اور حمام کے۔
➌ حضرت جندب بن عبداللہؓ کی روایت:
قال سمعت رسول اللهﷺ قبل ان يموت بخمس وهو يقول الا ان من كان قبلكم كانوا يتخذون القبور مساجد انى انهاكم عن ذلك.
(صحیح مسلم، ص201، ج1، و نيل الاوطار)
ترجمہ: حضرت جندبؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کی وفات سے پانچ دن قبل سنا، آپ فرما رہے تھے: سابقہ قومیں قبروں کو مسجد بناتی تھیں، سن لو! میں تمہیں اس سے منع کرتا ہوں۔
نتیجہ:
✿ قبروں یا ان کے آس پاس بنائی گئی مساجد میں نماز پڑھنا منع اور ناجائز ہے۔
✿ اگر مصنوعی قبر کو ہٹا دیا جائے، لیکن باقی علامات (جھنڈا، جھاڑو، تالاب) موجود رہیں، تو پھر بھی نماز درست نہیں۔
✿ اگر قبر اور تمام متعلقہ چیزیں مکمل طور پر ختم کر دی جائیں، اور کوئی نشان باقی نہ رہے، اور اس جگہ کو مسجد میں شامل کر دیا جائے، تب ایسی مسجد میں نماز درست ہو گی۔
واللہ اعلم بالصواب