سوال :
کیا حرام جانوروں کے اعضاء انسانی بدن میں لگائے جا سکتے ہیں؟ قرآن و حدیث کی روشنی میں مدلل جواب دیں۔
جواب :
اللہ تبارک و تعالیٰ نے ہمارے استعمال کے لیے جو اشیاء بنائی ہیں وہ حلال اور طیبہ ہیں، حرام و خبیث اشیاء ہمارے لیے ناجائز ہیں۔ قرآن کریم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَيُحِلُّ لَهُمُ الطَّيِّبَاتِ وَيُحَرِّمُ عَلَيْهِمُ الْخَبَائِثَ﴾
(الأعراف: 157)
”اور آپ ان کے لیے پاک چیزوں کو حلال اور ناپاک چیزوں کو حرام ٹھہراتے ہیں۔“
امام ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ”بعض علماء نے کہا ہے کہ کھانے والی اشیاء میں سے جو چیز اللہ نے حلال کی ہے وہ پاک اور جسم و دین میں نفع بخش ہے اور ہر وہ چیز جسے اللہ نے حرام کیا ہے وہ ناپاک اور جسم و دین میں نقصان دہ ہے۔“
(تفسیر ابن کثیر 339/3)
اللہ تعالیٰ کی حلال کردہ اشیاء میں نفع اور پاکیزگی ہے، جبکہ حرام کردہ اشیاء میں ضرور نقصان ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی حرام اشیاء کو دوا کے لیے استعمال کرنا منع قرار دیا ہے۔ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: ”رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خبیث دوا سے منع فرمایا ہے۔“
(ابو داود کتاب الطب باب في الأدوية المكروهة ح 3870)
بعض روایات میں اس کی تفسیر زہر اور خمر سے کی گئی ہے، لیکن یہ حدیث عام ہے، زہر، شراب اور ہر حرام و خبیث چیز کو شامل ہے۔ نافع رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں:
”ابن عمر رضی اللہ عنہما جب کسی ایسے طبیب کو بلاتے جو ان کے گھر میں کسی کا علاج کرتا تو اس پر شرط لگاتے کہ وہ کسی ایسی چیز سے علاج نہیں کرے گا جسے اللہ نے حرام قرار دیا ہے۔“
(السنن الكبرى للبيهقي 65/10 ح 19683)
ابودرداء رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے بیماری اور دوا نازل کی اور ہر بیماری کے لیے دوا بنائی، پس تم دوا استعمال کرو اور حرام دوا استعمال نہ کرو۔“
(ابو داود ح 3871، بیهقي 5/10 ج 19681)
اس کی سند میں اسماعیل بن عیاش کا استاد ثعلبہ بن مسلم مستور ہے لیکن حدیث ابی ہریرہ رضی اللہ عنہ اس کا شاہد ہے اور اس کے پہلے حصے کا شاہد ابو داود کی (کتاب الطب باب فی الرجل يتداوى ح 3855) میں حدیث اسامہ رضی اللہ عنہ ہے۔
مندرجہ بالا حدیث سے معلوم ہوا کہ حرام اشیاء سے علاج کرنا منع ہے، لہذا حرام جانوروں کے اعضاء کی پیوند کاری انسانی جسم میں درست نہیں۔ (واللہ أعلم)