کیا حدیث کو قرآن پر پیش کرنے والی روایت موضوع ہے؟
ماخوذ: فتاویٰ علمیہ (توضیح الاحکام) جلد 2، صفحہ 475

سوال

کیا وہ حدیث جس میں نبی کریم ﷺ کی احادیث کو قرآن پر پیش کرنے کی بات ہے، موضوع (من گھڑت) ہے؟

روایت کا متن

قاضی ابویوسف یعقوب بن ابراہیم (متوفی ۱۸۲ھ) کی طرف منسوب کتاب ’’الرد علیٰ سیر الاوزاعی‘‘ میں مذکور ہے:

حدثنا ابن ابی کریمة عن ابی جعفر عن رسول الله صلی الله علیه وسلم انه دعا الیهود فسالهم فحدثوه حتی کذبوا علیٰ عیسیٰ علیه الصلوة والسلام، فصمد النبی صلی الله علیه وسلم المنبر فخطب الناس فقال: ان الحدیث سیفشو عنی فما اتاکم عنی یوافق القرآن فهو عنی، وما اتاکم عنی یخالف القرآن فلیس عنی
ہمیں (خالد) ابن ابی کریمہ نے ابوجعفر (عبداللہ بن مسور) سے حدیث بیان کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہودیوں کو بلا کر پوچھا، تو انھوں نے حدیثیں بیان کیں حتیٰ کہ انہوں نے عیسیٰ علیہ السلام پر جھوٹ بولا۔ پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے منبر پر چڑھ کر لوگوں کو خطبہ دیا اور فرمایا:
’’میرے بارے میں حدیثیں پھیل جائیں گی، پس تمھارے پاس میری کوئی حدیث قرآن کے مطابق پہنچے تو وہ میری حدیث ہے۔ اور تم تک میری طرف سے جو روایت قرآن کے مخالف پہنچے تو وہ میری حدیث نہیں ہے۔‘‘
(الرد علی سیر الاوزاعی، ص۲۴، ۲۵)

جواب

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
یہ روایت موضوع (من گھڑت) ہے اور اس کی سند و متن دونوں قابلِ اعتماد نہیں ہیں۔ درج ذیل دلائل سے یہ بات واضح ہوتی ہے:

دلیل اول: ابوجعفر سے مراد عبداللہ بن مسور (الہاشمی) ہے

  • التاریخ الکبیر للبخاری (۳؍۱۶۸)
  • الثقات لابن حبان (۶؍۲۶۲)
  • تاریخ بغداد (۸؍۲۹۲)
  • اخبار اصبہان (۱؍۳۰۵)

حافظ ابو نعیم الاصبہانی فرماتے ہیں:

ابوجعفر هو عبداللہ بن مسور
(اخبار اصبہان ۱؍۳۰۵)

امام احمد بن حنبل نے کہا:

کان یضع الحدیث ویکذب
وہ حدیثیں گھڑتا اور جھوٹ بولتا تھا۔
(کتاب الجرح والتعدیل ۵؍۱۶۹، سند صحیح)

ابن حبان نے فرمایا:
وہ ثقہ راویوں سے موضوع روایتیں بیان کرتا اور مرسل روایات گھڑتا تھا۔ حتیٰ کہ اگر وہ ثقہ راویوں کی موافقت کرے، تب بھی اس کی روایت ناقابلِ استدلال ہے۔
(کتاب المجروحین۲؍۲۴)

امام ذہبی نے لکھا:

یکذب
وہ جھوٹا ہے۔
(دیوان الضعفاء والمتروکین: ۲۳۱۳)

یہ راوی بالاجماع کذاب و مجروح ہے۔

تنبیہ:
تہذیب الکمال اور تہذیب التہذیب میں غلطی سے خالد بن ابی کریمہ کے استادوں میں ابوجعفر الباقر کا نام آ گیا ہے، جبکہ سلف صالحین سے اس کی کوئی سند ثابت نہیں۔

دلیل دوم: ابوجعفر عبداللہ بن مسور کی مرسل روایات بے اصل ہیں

جیسا کہ اوپر ذکر ہوا، وہ راوی جھوٹ گھڑنے والا ہے اور اس کی مرسل احادیث ناقابلِ اعتبار ہیں۔

دلیل سوم: قاضی ابویوسف بذاتِ خود ضعیف راوی ہیں

جمہور محدثین کے نزدیک قاضی ابویوسف کی روایت ضعیف اور مردود ہے۔

ماہنامہ الحدیث، شمارہ ۱۹، صفحات ۴۵ تا ۵۵

دلیل چہارم: کتاب ’’الرد علی سیر الاوزاعی‘‘ قاضی ابویوسف سے صحیح سند کے ساتھ ثابت نہیں

اس کتاب کی سند خود قاضی ابویوسف سے معتبر طور پر منقول نہیں۔

الحدیث، شمارہ ۱۹، صفحات ۵۳، ۵۴

دلیل پنجم: یہ روایت قرآن مجید کے خلاف ہے

روایت کا مضمون قرآن کی اس آیت سے متصادم ہے:

﴿وَما ءاتىٰكُمُ الرَّ‌سولُ فَخُذوهُ…٧﴾
’’اور تمھیں رسول جو (حکم) دے، اسے لے لو۔‘‘
(سورۃ الحشر: آیت ۷)

اس روایت سے یہ تاثر ملتا ہے کہ صرف وہی حدیث معتبر ہوگی جو قرآن سے موافق ہو، جو کہ قرآن کے مذکورہ اصول کے خلاف ہے۔

مزید باطل شواہد

ابوالوفاء الافغانی (متروک الحدیث) نے اس روایت کے بعض باطل اور موضوع شواہد پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔

حاشیہ الرد علی سیر الاوزاعی (ص۲۵ تا ۲۸)

لیکن یہ تمام شواہد بھی موضوع، باطل اور مردود ہیں۔

نتیجہ

یہ روایت سند اور متن دونوں کے اعتبار سے موضوع، باطل اور ناقابلِ اعتماد ہے۔ معتبر محدثین کی تصریحات کے مطابق اسے بیان کرنا یا اس سے استدلال کرنا جائز نہیں۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1